Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 51
وَ اَنْذِرْ بِهِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ لَیْسَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَاَنْذِرْ : اور ڈراویں بِهِ : اس سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَخَافُوْنَ : خوف رکھتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْشَرُوْٓا : کہ وہ جمع کیے جائیں گے اِلٰى : طرف (سامنے) رَبِّهِمْ : اپنا رب لَيْسَ : نہیں لَهُمْ : انکے لیے مِّنْ : کوئی دُوْنِهٖ : اس کے سوا وَلِيٌّ : کوئی حمایتی وَّلَا : اور نہ شَفِيْعٌ : سفارش کرنیوالا لَّعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : بچتے رہیں
ا ے محمد ؐ ! تم اِس (علم وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے ربّ کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کیے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہوگا جو ان کا حامی و مدد گار ہو، یا ان کی سفارش کرے، شاید کہ (اس نصیحت سے متنبّہ ہو کر) وہ خداترسی کی روش اختیار کرلیں۔ 33
سورة الْاَنْعَام 33 مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں ایسے مدہوش ہیں کہ انہیں نہ موت کی فکر ہے نہ یہ خیال ہے کہ کبھی ہمیں اپنے خدا کو بھی منہ دکھانا ہے، ان پر تو یہ نصیحت ہرگز کارگر نہ ہوگی۔ اور اسی طرح ان لوگوں پر بھی اس کا کچھ اثر نہ ہوگا جو اس بےبنیاد بھروسے پر جی رہے ہیں کہ دنیا میں ہم جو چاہیں کر گزریں، آخرت میں ہمارا بال تک بیکا نہ ہوگا، کیونکہ ہم فلاں کے دامن گرفتہ ہیں، یا فلاں ہماری سفارش کر دے گا، یا فلاں ہمارے لیے کفارہ بن چکا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو چھوڑ کر تم اپنا روئے سخن ان لوگوں کی طرف رکھو جو خدا کے سامنے حاضری کا بھی اندیشہ رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ جھوٹے بھروسوں پر پھولے ہوئے بھی نہ ہوں۔ اس نصیحت کا اثر صرف ایسے ہی لوگوں پر ہوسکتا ہے اور انہی کے درست ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
Top