Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 50
قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَقُوْلُ : نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ : خزانے اللّٰهِ : اللہ وَلَآ : اور نہیں اَعْلَمُ : میں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَلَآ اَقُوْلُ : اور نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ اِنْ اَتَّبِعُ : میں نہیں پیروی کرتا اِلَّا : مگر مَا يُوْحٰٓى : جو وحی کیا جاتا ہے اِلَيَّ : میری طرف قُلْ : آپ کہ دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہے الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ : سو کیا تم غور نیں کرتے
اے محمد ؐ ! ان سے کہو، ”میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہو جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے“۔31 پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟32 کیا تم غور نہیں کرتے؟
سورة الْاَنْعَام 31 نادان لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ احمقانہ تصور رہا ہے کہ جو شخص خدا رسیدہ ہو اسے انسانیت سے ماوراء ہونا چاہیے، اس سے عجائب وغرائب صادر ہونے چاہییں، وہ ایک اشارہ کرے اور پہاڑ سونے کا بن جائے، وہ حکم دے اور زمین سے خزانے ابلنے لگیں، اس پر لوگوں کے اگلے پچھلے سب حالات روشن ہوں، وہ بتادے کہ گم شدہ چیز کہاں رکھی ہے، مریض بچ جائے گا، حاملہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ۔ پھر اس کو انسانی کمزوریوں اور محدودیتوں سے بھی بالاتر ہونا چاہیے۔ بھلا وہ بھی کوئی خدا رسیدہ ہوا جسے بھوک اور پیاس لگے، جس کو نیند آئے، جو بیوی بچے رکھتا ہو، جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خریدو فروخت کرتا پھرے۔ جسے کبھی قرض لینے کی ضرورت پیش آئے اور کبھی وہ مفلسی و تنگ دستی میں مبتلا ہو کر پریشان حال رہے۔ اسی قسم کے تصورات نبی ﷺ کے معاصرین کی ذہنیت پر مسلط تھے۔ وہ جب آپ ﷺ سے پیغمبری کا دعوٰی سنتے تھے تو آپ ﷺ کی صداقت جانچنے کے لیے آپ ﷺ سے غیب کی خبریں پوچھتے تھے، خوارق عادت کا مطالبہ کرتے تھے، اور آپ کو بالکل عام انسانوں جیسا ایک انسان دیکھ کر اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا پیغمبر ہے جو کھاتا پیتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ انہی باتوں کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ سورة الْاَنْعَام 32 مطلب یہ ہے کہ میں جن حقیقتوں کو تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں ان کا میں نے مشاہدہ کیا ہے، وہ براہ راست میرے تجربہ میں آئی ہیں، مجھے وحی کے ذریعہ سے ان کا ٹھیک ٹھیک علم دیا گیا ہے، ان کے بارے میں میری شہادت آنکھوں دیکھی شہادت ہے۔ بخلاف اس کے تم ان حقیقتوں کی طرف سے اندھے ہو، تم ان کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہو وہ یا تو قیاس و گمان پر مبنی ہیں یا محض اندھی تقلید پر۔ لہٰذا میرے اور تمہارے درمیان بینا اور نابینا کا سا فرق ہے اور اسی اعتبار سے مجھے تم پر فوقیت حاصل ہے، نہ اس اعتبار سے کہ میرے پاس کوئی خدائی کے خزانے ہیں، یا میں عالم الغیب ہوں، یا انسانی کمزوریوں سے مبرا ہوں۔
Top