Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 41
بَلْ اِیَّاهُ تَدْعُوْنَ فَیَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْهِ اِنْ شَآءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
بَلْ : بلکہ اِيَّاهُ : اسی کو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو فَيَكْشِفُ : پس کھول دیتا ہے (دور کردیتا ہے) مَا تَدْعُوْنَ : جسے پکارتے ہو اِلَيْهِ : اس کے لیے اِنْ : اگر شَآءَ : وہ چاہے وَتَنْسَوْنَ : اور تم بھول جاتے ہو مَا : جو۔ جس تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
اس وقت تم اللہ ہی کو پُکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے۔ ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بُھول جاتے ہو۔29
سورة الْاَنْعَام 29 گزشتہ آیت میں ارشاد ہوا تھا کہ تم ایک نشانی کا مطالبہ کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سلسلہ میں پہلے مثال کے طور پر حیوانات کی زندگی کے مشاہدہ کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کے بعد اب ایک دوسری نشانی کی طرف اشارہ فرمایا جارہا ہے جو خود منکرین حق کے اپنے نفس میں موجود ہے۔ جب انسان پر کوئی آفت آجاتی ہے، یا موت اپنی بھیانک صورت کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہے، اس وقت ایک خدا کے دامن کے سوا کوئی دوسری پناہ گاہ اسے نظر نہیں آتی۔ بڑے بڑے مشرک ایسے موقع پر اپنے معبودوں کو بھول کر خدا ے واحد کو پکارنے لگتے ہیں۔ کٹے سے کٹا دہریہ تک خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ اسی نشانی کو یہاں حق نمائی کے لیے پیش کیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا پرستی اور توحید کی شہادت ہر انسان کے نفس میں موجود ہے جس پر غفلت و جہالت کے خواہ کتنے ہی پردے ڈال دیے گئے ہوں، مگر پھر بھی کبھی نہ کبھی وہ ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ ابوجہل کے بیٹے عِکْرِمہ کو اسی نشانی کے مشاہدے سے ایمان کی توفیق نصیب ہوئی۔ جب مکہ معظمہ نبی ﷺ کے ہاتھ پر فتح ہوگیا تو عِکْرِمہ جدہ کی طرف بھاگے اور ایک کشتی پر سوار ہو کر حبش کی راہ لی۔ راستہ میں سخت طوفان آیا اور کشتی خطرہ میں پڑگئی۔ اول اول تو دیویوں اور دیوتاؤں کو پکارا جاتا رہا۔ مگر جب طوفان کی شدت بڑھی اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی تو سب کہنے لگے کہ یہ وقت اللہ کے سوا کسی کو پکارنے کا نہیں ہے، وہی چاہے تو ہم بچ سکتے ہیں۔ اس وقت عِکْرِمہ کی آنکھیں کھلیں اور ان کے دل نے آواز دی کہ اگر یہاں اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں تو کہیں اور کیوں ہو۔ یہی تو وہ بات ہے جو اللہ کا وہ نیک بندہ ہمیں بیس برس سے سمجھا رہا ہے اور ہم خواہ مخواہ اس سے لڑ رہے ہیں۔ یہ عِکْرِمہ کی زندگی میں فیصلہ کن لمحہ تھا۔ انہوں نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر میں اس طوفان سے بچ گیا تو سیدھا محمد ﷺ کے پاس جاؤں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔ چناچہ انہوں نے اپنے اس عہد کو پورا کیا اور بعد میں آکر نہ صرف مسلمان ہوئے بلکہ اپنی بقیہ عمر اسلام کے لیے جہاد کرتے گزار دی۔
Top