Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 161
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ١ۚ۬ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا١ۚ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
قُلْ : کہہ دیجئے اِنَّنِيْ : بیشک مجھے هَدٰىنِيْ : راہ دکھائی رَبِّيْٓ : میرا رب اِلٰي : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا دِيْنًا : دین قِيَمًا : درست مِّلَّةَ : ملت اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک کا ہو کر رہنے والا وَ : اور مَا كَانَ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
اے محمد ؐ ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریقہ142 جسے یکسُو ہوکر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا
سورة الْاَنْعَام 142 ”ابراہیم ؑ کا طریقہ“ یہ اس راستے کی نشان دہی کے لیے مزید ایک تعریف ہے۔ اگرچہ اس کو موسیٰ ؑ کا طریقہ یا عیسیٰ ؑ کا طریقہ بھی کہا جاسکتا تھا، مگر حضرت موسیٰ ؑ کی طرف دنیا نے یہودیت کو اور حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف مسیحیت کو منسوب کر رکھا ہے، اس لیے ”ابراہیم ؑ کا طریقہ“ فرمایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو یہودی اور عیسائی، دونوں گروہ بر حق تسلیم کرتے ہیں، اور دونوں یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے گزر چکے تھے۔ نیز مشرکین عرب بھی ان کو راست رو مانتے تھے اور اپنی جہالت کے باوجود کم از کم اتنی بات انہیں بھی تسلیم تھی کہ کعبہ کی بنا رکھنے والا پاکیزہ انسان خالص خدا پرست تھا نہ کہ بت پرست۔
Top