Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 136
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآئِنَا١ۚ فَمَا كَانَ لِشُرَكَآئِهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآئِهِمْ١ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مِمَّا : اس سے جو ذَرَاَ : اس نے پیدا کیا مِنَ الْحَرْثِ : کھیتی سے وَالْاَنْعَامِ : اور مویشی نَصِيْبًا : ایک حصہ فَقَالُوْا : پس انہوں نے کہا ھٰذَا : یہ لِلّٰهِ : اللہ کیلئے بِزَعْمِهِمْ : اپنے خیال میں وَھٰذَا : اور یہ لِشُرَكَآئِنَا : ہمارے شریکوں کے لیے فَمَا : پس جو كَانَ : ہے لِشُرَكَآئِهِمْ : ان کے شریکوں کے لیے فَلَا : تو نہیں يَصِلُ : پہنچتا اِلَى : طرف۔ کو اللّٰهِ : اللہ وَمَا : اور جو كَانَ : ہے لِلّٰهِ : اللہ کیلئے فَهُوَ : تو وہ يَصِلُ : پہنچتا ہے اِلٰي : طرف (کو) شُرَكَآئِهِمْ : ان کے شریک سَآءَ : برا ہے مَا يَحْكُمُوْنَ : جو وہ فیصلہ کرتے ہیں
ان لوگوں104 نے اللہ کے لیے خود اُسی کی پیدا کی ہوئی کھیتیوں اور مویشیوں میں سے ایک حصّہ مقرر کیا ہے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے، بزعمِ خود، اور یہ ہمارے ٹھیراے ہوئے شریکوں کے لیے۔105 پھر جو حصّہ ان کے ٹھیرائے ہوے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا مگر جو اللہ کے لیے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے۔106 کیسے بُرے فیصلے کرتے ہیں یہ لوگ !
سورة الْاَنْعَام 104 اوپر کا سلسلہ تقریر اس بات پر تمام ہوا تھا کہ اگر یہ لوگ نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنی جاہلیت پر اصرار کیے جاتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ اچھا، تم اپنے طریقہ پر عمل کرتے رہو اور میں اپنے طریقہ پر عمل کروں گا، قیامت ایک دن ضرور آنی ہے، اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس روش کا کیا انجام ہوتا ہے، بہرحال یہ خوب سمجھ لو کہ وہاں ظالموں کو فلاح نصیب نہ ہوگی۔ اس کے بعد اب اس جاہلیت کی کچھ تشریح کی جاتی ہے جس پر وہ لوگ اصرار کر رہے تھے اور جسے چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہ ہوتے تھے۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ تمہارا وہ ”ظلم“ کیا ہے جس پر قائم رہتے ہوئے تم کسی فلاح کی امید نہیں کرسکتے۔ سورة الْاَنْعَام 105 اس بات کے وہ خود قائل تھے کہ زمین اللہ کی ہے اور کھیتیاں وہی اگاتا ہے۔ نیز ان جانوروں کا خالق بھی اللہ ہی ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں خدمت لیتے ہیں۔ لیکن ان کا تصور یہ تھا کہ ان پر اللہ کا یہ فضل ان دیویوں اور دیوتاؤں اور فرشتوں اور جنات، اور آسمانی ستاروں اور بزرگان سلف کی ارواح کے طفیل و برکت سے ہے جو ان پر نظر کرم رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور اپنے جانوروں میں سے دو حصے نکالتے تھے۔ ایک حصہ اللہ کے نام کا، اس شکریہ میں کہ اس نے یہ کھیت اور یہ جانور انہیں بخشے۔ اور دوسرا حصہ اپنے قبیلہ اور خاندان کے سرپرست معبودوں کی نذر و نیاز کا تاکہ ان کی مہربانیاں ان کے شامل حال رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے اسی ظلم پر گرفت فرماتا ہے کہ یہ سب مویشی ہمارے پیدا کیے ہوئے اور ہمارے عطا کردہ ہیں، ان میں یہ دوسروں کی نذر و نیاز کیسی ؟ یہ نمک حرامی نہیں تو کیا ہے کہ تم اپنے محسن کے احسان کو، جو اس نے سراسر خود اپنے فضل و کرم سے تم پر کیا ہے، دوسروں کی مداخلت اور ان کے توسط کا نتیجہ قرار دیتے ہو اور شکریہ کے استحقاق میں انہیں اس کے ساتھ شریک کرتے ہو۔ پھر اشارۃً دوسری گرفت اس بات پر بھی فرمائی ہے کہ یہ اللہ کا حصہ جو انھوں نے مقرر کیا ہے یہ بھی بزعم خود کرلیا ہے، اپنے شارع خود بن بیٹھے ہیں، آپ ہی جو حصہ چاہتے ہیں اللہ کے لیے مقر کرلیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دوسروں کے لیے طے کردیتے ہیں۔ حالانکہ اپنی بخشش کا اصل مالک و مختار خود اللہ ہے اور یہ بات اسی کی شریعت کے مطابق طے ہونی چاہیے کہ اس بخشش میں سے کتنا حصہ اس کے شکریہ کے لیے نکالا جائے اور باقی میں کون کون حق دار ہیں۔ پس درحقیقت اس خود مختارانہ طریقہ سے جو حصہ یہ لوگ اپنے زعم باطل میں خدا کے لیے نکالتے ہیں اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خیرات کرتے ہیں وہ بھی کوئی نیکی نہیں ہے۔ خدا کے ہاں اس کے مقبول ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔ سورة الْاَنْعَام 106 یہ لطیف طنز ہے ان کی اس حرکت پر کہ وہ خدا کے نام سے جو حصہ نکالتے تھے اس میں بھی طرح طرح کی چالبازیاں کر کے کمی کرتے رہتے تھے اور ہر صورت سے اپنے خود ساختہ شریکوں کا حصہ بڑھانے کی کوشش کرتے تھے، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ جو دلچسپی انہیں اپنے ان شریکوں سے ہے وہ خدا سے نہیں ہے۔ مثلاً جو غلے یا پھل وغیرہ خدا کے نام پر نکالے جاتے ان میں سے اگر کچھ گر جاتا تو وہ شریکوں کے حصہ میں شامل کردیا جاتا تھا، اور اگر شریکوں کے حصہ میں سے گرتا، یا خدا کے حصے میں مل جاتا تو اسے انہی کے حصہ میں واپس کیا جاتا۔ کھیت کا جو حصہ شریکوں کی نذر کے لیے مخصوص کیا جاتا تھا اگر اس میں سے پانی اس حصہ کی طرف پھوٹ بہتا جو خدا کی نذر کے لیے مختص ہوتا تھا تو اس کی ساری پیداوار شریکوں کے حصہ میں داخل کردی جاتی تھی، لیکن اگر اس کے برعکس صورت پیش آتی تو خدا کے حصہ میں کوئی اضافہ نہ کیا جاتا۔ اگر کبھی خشک سالی کی وجہ سے نذر و نیاز کا غلہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصہ کھالیتے تھے مگر شریکوں کے حصہ کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل نہ ہوجائے۔ اگر کسی وجہ سے شریکوں کے حصہ میں کچھ کمی آجاتی تو وہ خدا کے حصہ سے پوری کی جاتی تھی لیکن خدا کے حصہ میں کمی ہوتی تو شریکوں کے حصہ میں سے ایک حبہ بھی اس میں نہ ڈالا جاتا۔ اس طرز عمل پر کوئی نکتہ چینی کرتا تو جواب میں طرح طرح کی دل فریب توجیہیں کی جاتی تھیں۔ مثلاً کہتے تھے کہ خدا تو غنی ہے، اس کے حصہ میں سے کچھ کمی بھی ہوجائے تو اسے کیا پروا ہو سکتی ہے۔ رہے یہ شریک، تو یہ بندے ہیں، خدا کی طرح غنی نہیں ہیں، اس لیے ذرا سی کمی بیشی پر بھی ان کے ہاں گرفت ہوجاتی ہے۔ ان توہمات کی اصل جڑ کیا تھی، اس کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ جہلائے عرب اپنے مال میں سے جو حصہ خدا کے لیے نکالتے تھے، وہ فقیروں، مسکینوں، مسافروں اور یتیموں وغیرہ کی مدد میں صرف کیا جاتا تھا، اور جو حصہ شریکوں کی نذر و نیاز کے لیے نکالتے تھے وہ یا تو براہ راست مذہبی طبقوں کے پیٹ میں جاتا تھا یا آستانوں پر چڑھاوے کی صورت میں پیش کیا جاتا اور اس طرح بالواسطہ مجاوروں اور پوجاریوں تک پہنچ جاتا تھا۔ اسی لیے ان خود غرض مذہبی پیشواؤں نے صدیوں کی مسلسل تلقین سے ان جاہلوں کے دل میں یہ بات بٹھائی تھی کہ خدا کے حصہ میں کمی ہوجائے تو کچھ مضائقہ نہیں، مگر ”خدا کے پیاروں“ کے حصہ میں کمی نہ ہونی چاہیے بلکہ حتی الامکان کچھ بیشی ہی ہوتی رہے تو بہتر ہے۔
Top