Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 116
وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تُطِعْ : تو کہا مانے اَكْثَرَ : اکثر مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں يُضِلُّوْكَ : وہ تجھے بھٹکا دیں گے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اِنْ : نہیں يَّتَّبِعُوْنَ : بیروی کرتے اِلَّا : مگر (صرف) الظَّنَّ : گمان وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَخْرُصُوْنَ : اٹکل دوڑاتے ہیں
اور اے محمد ؐ ! اگر تم اُن لوگوں کی اکثریّت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرا ئیاں کرتے ہیں۔83
سورة الْاَنْعَام 83 یعنی بیشتر لوگ جو دنیا میں بستے ہیں علم کے بجائے قیاس و گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور ان کے عقائد، تخیلات، فلسفے، اصول زندگی اور قوانین عمل سب کے سب قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ بخلاف اس کے اللہ کے راستہ، یعنی دنیا میں زندگی بسر کرنے کا وہ طریقہ جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے، لازماً صرف وہی ایک ہے جس کا علم اللہ نے خود دیا ہے نہ کہ وہ جس کو لوگوں نے بطور خود اپنے قیاسات سے تجویز کرلیا ہے۔ لہٰذا کسی طالب حق کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا کے بیشتر انسان کس راستہ پر جا رہے ہیں بلکہ اسے پوری ثابت قدمی کے ساتھ اس راہ پر چلنا چاہیے جو اللہ نے بتائی ہے، چاہے اس راستہ پر چلنے کے لیے وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے۔
Top