Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 109
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْ١ۙ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
وَاَقْسَمُوْا : اور وہ قسم کھاتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ : تاکید سے لَئِنْ : البتہ اگر جَآءَتْهُمْ : ان کے پاس آئے اٰيَةٌ : کوئی نشانی لَّيُؤْمِنُنَّ : تو ضرور ایمان لائیں گے بِهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں اِنَّمَا : کہ الْاٰيٰتُ : نشانیاں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس وَمَا : اور کیا يُشْعِرُكُمْ : خبر نہیں اَنَّهَآ : کہ وہ اِذَا جَآءَتْ : جب آئیں لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہ لائیں گے
یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھاکر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی 74ہمارے سامنے آجائے تو ہم اس پر ایمان لے آئیں گے۔ اے محمد ؐ ! ان سے کہو کہ ”نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں“۔75 اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آبھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں۔76
سورة الْاَنْعَام 74 نشانی سے مراد کوئی ایسا صریح محسوس معجزہ ہے جسے دیکھ کر نبی ﷺ کی صداقت اور آپ ﷺ کے مامور مِنَ اللہ ہونے کو مان لینے کو سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ سورة الْاَنْعَام 75 یعنی نشانیوں کے پیش کرنے اور بنا لانے کی قدرت مجھے حاصل نہیں ہے، ان کا اختیار تو اللہ کو ہے، چاہے دکھائے اور نہ چاہے نہ دکھائے۔ سورة الْاَنْعَام 76 یہ خطاب مسلمانوں سے ہے جو بےتاب ہو ہو کر تمنا کرتے تھے اور کبھی کبھی زبان سے بھی اس خواہش کا اظہار کردیتے تھے کہ کوئی ایسی نشانی ظاہر ہوجائے جس سے ان کے گمراہ بھائی راہ راست پر آجائیں ان کی اسی تمنا اور خواہش کے جواب میں ارشاد ہو رہا ہے کہ آخر تمہیں کس طرح سمجھایا جائے کہ ان لوگوں کا ایمان لانا کسی نشانی کے طور پر موقوف نہیں ہے۔ سورة الْاَنْعَام 77 یعنی ان کے اندر وہی ذہنیت کام کیے جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پہلی مرتبہ محمد ﷺ کی دعوت سن کر اسے ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے نقطہ نظر میں ابھی تک کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے، وہی عقل کا پھیر اور نظر کا بھینگا پن جو انہیں اس وقت صحیح سمجھنے اور صحیح دیکھنے سے روک رہا تھا آج بھی ان پر اسی طرح مسلط ہے۔
Top