Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 104
قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّكُمْ١ۚ فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَا١ؕ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
قَدْ جَآءَكُمْ : آچکیں تمہارے پاس بَصَآئِرُ : نشانیاں مِنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب فَمَنْ : سو جو۔ جس اَبْصَرَ : دیکھ لیا فَلِنَفْسِهٖ : سو اپنے واسطے وَ : اور مَنْ : جو عَمِيَ : اندھا رہا فَعَلَيْهَا : تو اس کی جان پر وَمَآ : اور نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
دیکھو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا، میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں۔69
سورة الْاَنْعَام 69 یہ فقرہ اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہے مگر نبی ﷺ کی طرف سے ادا ہو رہا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح مخاطب بار بار بدلتے ہیں کہ کبھی نبی ﷺ سے خطاب ہوتا ہے، کبھی اہل ایمان سے، کبھی اہل کتاب سے، کبھی کفار و مشرکین سے، کبھی قریش کے لوگوں سے، کبھی اہل عرب سے اور کبھی عام انسانوں سے، حالانکہ اصل غرض پوری نوع انسانی کی ہدایت ہے، اسی طرح متکلم بھی بار بار بدلتے ہیں کہ کہیں متکلم خدا ہوتا ہے، کہیں وحی لانے والا فرشتہ، کہیں فرشتوں کا گروہ، کہیں نبی ﷺ ، اور کہیں اہل ایمان، حالانکہ ان سب صورتوں میں کلام وہی ایک خدا کا کلام ہوتا ہے۔ اور مشرکین سے، کبھی قریش کے لوگوں سے، کبھی اہل عرب سے اور ”میں تم پر پاسبان نہیں ہوں“ یعنی میرا کام بس اتنا ہی ہے کہ اس روشنی کو تمہارے سامنے پیش کردوں۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر دیکھنا یا نہ دیکھنا تمہارا اپنا کام ہے۔ میرے سپرد یہ خدمت نہیں کی گئی ہے کہ جنھوں نے خود آنکھیں بند کر رکھی ہیں ان کی آنکھیں زبردستی کھولوں اور جو کچھ وہ نہیں دیکھتے وہ انہیں دکھا کر ہی چھوڑوں۔
Top