Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اِس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا،67 حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں،68 حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں۔
سورة الْاَنْعَام 67 یعنی اپنے وہم و گمان سے یہ ٹھہرا لیا کہ کائنات کے انتظام میں اور انسان کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں اللہ کے ساتھ دوسری پوشیدہ ہستیاں بھی شریک ہیں، کوئی بارش کا دیوتا ہے تو کوئی روئیدگی کا، کوئی دولت کی دیوی ہے تو کوئی بیماری کی، وغیر ذالک مِن الخرافات۔ اس قسم کے لغو اعتقادات دنیا کی تمام مشرک قوموں میں ارواح اور شیاطین اور راکشسوں اور دیوتاؤں اور دیویوں کے متعلق پائے جاتے رہے ہیں۔ سورة الْاَنْعَام 68 جہلائے عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اسی طرح دنیا کی دوسری مشرک قوموں نے بھی خدا سے سلسلہ نسب چلایا ہے اور پھر دیوتاؤں اور دیویوں کی ایک پوری نسل اپنے وہم سے پیدا کردی ہے۔
Top