Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی بُرائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے53 اور تم کو عزّت کی جگہ داخل کریں گے
سورة النِّسَآء 53 یعنی ہم تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پکڑ کر اپنے بندوں کو سزا دیں۔ اگر تمہارا نامہ اعمال بڑے جرائم سے خالی ہو تو چھوٹی خطاؤں کو نظر انداز کردیا جائے گا اور تم پر فرد جرم لگائی ہی نہ جائے گی۔ البتہ اگر بڑے جرائم کا ارتکاب کر کے آؤ گے تو پھر جو مقدمہ تم پر قائم کیا جائے گا اس میں چھوٹی خطائیں بھی گرفت میں آجائیں گی۔ یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں اصولی فرق کیا ہے۔ جہاں تک میں نے قرآن اور سنت میں غور کیا ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے (واللہ اعلم بالصواب) کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں (1) کسی کی حق تلفی، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہو، یا والدین ہوں، یا دوسرے انسان، یا خود اپنا نفس۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اسی بنا پر گناہ کو ”ظلم“ بھی کہا جاتا ہے اور اسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہا گیا ہے۔ (2) اللہ سے بےخوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار، جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امر و نہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے، اور عمداً ان کاموں کو نہ کرے جن کا اس نے حکم دیا ہے۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخدا ترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فسق“ اور ”معصیت“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ (3) ان روابط کو توڑنا اور ان تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے، خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان۔ پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے، اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اور اس کے مختلف مدارج پر غور کیجیے۔ یہ فعل فی نفسہ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے، مگر اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں۔ شادی شدہ انسان کا گناہ کرنا بن بیا ہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے گناہ کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ برا ہے۔ محرمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے۔ مسجد میں گناہ کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشد ہے۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجوہ سے ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے، جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحق احترام ہے، اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجب فساد ہے، وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فجور“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
Top