Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دُوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاوٴ، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضا مندی سے۔ 50 اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ 51 یقین مانو کہ اللہ تمہارے اُوپر مہربان ہے۔52
سورة النِّسَآء 50 ”باطل طریقوں“ سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جو خلاف حق ہوں اور شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہوں۔ ”لین دین“ سے مراد یہ ہے کہ آپس میں مفاد و منافع کا تبادلہ ہونا چاہیے جس طرح تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی ضروریات فراہم کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور وہ اس کا معاوضہ دیتا ہے۔ ”آپس کی رضامندی“ سے مراد یہ ہے کہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہو اور نہ فریب و دغا سے۔ رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر درحقیقت جوے میں حصہ لینے والا ہر شخص اس غلط امید پر رضا مند ہوتا ہے کہ جیت اس کی ہوگی۔ ہارنے کے ارادے سے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا۔ جعل اور فریب کے کاروبار میں بھی بظاہر رضا مندی ہوتی ہے مگر اس غلط فہمی کی بنا پر ہوتی ہے کہ اندر جعل و فریب نہیں ہے۔ اگر فریق ثانی کو معلوم ہو کہ تم اس سے جعل یا فریب کر رہے ہو تو وہ ہرگز اس پر راضی نہ ہو۔ سورة النِّسَآء 51 یہ فقرہ پچھلے فقرے کا تتمہ بھی ہوسکتا ہے اور خود ایک مستقل فقرہ بھی۔ اگر پچھلے فقرے کا تتمہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانا خود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ دنیا میں اس سے نظام تمدن خراب ہوتا ہے اور اس کے برے نتائج سے حرام خور آدمی خود بھی نہیں بچ سکتا۔ اور آخرت میں اس کی بدولت آدمی سخت سزا کا مستوجب بن جاتا ہے اور اگر اسے مستقل فقرہ سمجھا جائے تو اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔ دوسرے یہ کہ خود کشی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے جامع استعمال کئے ہیں اور ترتیب کلام ایسی رکھی ہے کہ اس سے یہ تینوں مفہوم نکلتے ہیں اور تینوں حق ہیں۔ سورة النِّسَآء 52 یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا خیر خواہ ہے، تمہاری بھلائی چاہتا ہے، اور یہ اس کی مہربانی ہی ہے کہ وہ تم کو ایسے کاموں سے منع کر رہا ہے جن میں تمہاری اپنی بربادی ہے۔
Top