Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کردو132(خصوصاً) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے133 کیونکہ وہ کُھلم کُھلّا تمہاری دُشمنی پر تُلے ہوئے ہیں
سورة النِّسَآء 132 زمانہ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں۔ اور حالت جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جنگی حالات جس طرح بھی اجازت دیں، نماز پڑھی جائے۔ جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی۔ قبلہ رخ نہ ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رخ ہو۔ سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو۔ رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی۔ ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں۔ ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پرخطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جاسکے تو مجبوراً موخر کی جائے جیسے جنگ خندق کے موقع پر ہوا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ سفر میں صرف فرض پڑھے جائیں یا سنتیں بھی۔ نبی ﷺ کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشاء کے وتر کا تو التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض پڑھتے تھے، سنتیں پڑھنے کا التزام آپ سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ نفل نمازوں کا جب موقع ملتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے، حتٰی کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھتے رہتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسے بندے کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کر رہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر منزل کرے اور اطمینان حاصل ہو تو پڑھنا افضل ہے۔ جس سفر میں قصر کیا جاسکتا ہے اس کے لیے بعض ائمہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے، جیسے جہاد، حج، عمرہ، طلب علم وغیرہ۔ ابن عمر، ابن مسعود ؓ اور عطا کا یہی فتویٰ ہے۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ سفر کسی ایسے مقصد کے لیے ہونا چاہیے جو شرعاً جائز ہو، حرام و ناجائز اغراض کے لیے جو سفر کیا جائے اس میں قصر کی اجازت سے فائدہ اٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جاسکتا ہے، رہی سفر کی نوعیت، تو وہ بجائے خود ثواب یا عتاب کی مستحق ہو سکتی ہے، مگر قصر کی اجازت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بعض ائمہ نے ”مضائقہ نہیں“ (فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ) کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض اس کی اجازت ہے۔ آدمی چاہے تو اس سے فائدہ اٹھائے ورنہ پوری نماز پڑھے۔ یہی رائے امام شافعی ؒ نے اختیار کی ہے، اگرچہ وہ قصر کرنے کو افضل اور ترک قصر کو ترک اولیٰ قرار دیتے ہیں۔ امام احمد ؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب تو نہیں ہے مگر نہ کرنا مکروہ ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب ہے اور یہی رائے ایک روایت میں امام مالک ؒ سے بھی منقول ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں۔ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ اور ابوبکر اور عمر اور عثمان ؓ کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں اور کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے قصر نہ کیا ہو۔ اسی کی تائید میں ابن عباس ؓ اور دوسرے متعدد صحابہ سے بھی مستند روایات منقول ہیں۔ حضرت عثمان ؓ نے جب حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں پڑھائیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت عثمان ؓ نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کیا کہ میں نے مکہ میں شادی کرلی ہے، اور چونکہ نبی ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں متأَ مِّل ہوا ہو وہ گویا اس شہر کا باشندہ ہے، اس لیے میں نے یہاں قصر نہیں کیا۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور اتمام دونوں درست ہیں، لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے علاوہ خود حضرت عائشہ ؓ ہی کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ ایک حالت بین السفر والحضر بھی ہوتی ہے جس میں ایک ہی عارضی فرودگاہ پر حسب موقع کبھی قصر اور کبھی اتمام دونوں کیے جاسکتے ہیں، اور غالباً حضرت عائشہ ؓ نے اسی حالت کے متعلق فرمایا ہوگا کہ نبی ﷺ نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور اتمام بھی۔ رہے قرآن کے یہ الفاظ کہ ”مضائقہ نہیں اگر قصر کرو“ تو ان کی نظیر سورة بقرہ رکوع 19 میں گزر چکی ہے جہاں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے گئے ہیں، حالانکہ یہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور واجب ہے۔ دراصل دونوں جگہ یہ کہنے کا مقصود لوگوں کے اس اندیشہ کو دور کرنا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں کوئی گناہ تو لازم نہیں آئے گا یا ثواب میں کمی تو نہ ہوگی۔ مقدار سفر جس میں قصر کیا جاسکتا ہے، ظاہریہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے، ہر سفر میں قصر کیا جاسکتا ہے خواہ کم ہو یا زیادہ۔ امام مالک ؒ کے نزدیک 48 میل یا ایک دن رات سے کم کے سفر میں قصر نہیں ہے۔ یہی رائے امام احمد ؒ کی ہے۔ ابن عباس ؓ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی ؒ سے بھی ایک قول اس کی تائید میں مروی ہے۔ حضرت اَنَس 15 میل کے سفر میں قصر کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ امام اوزاعی اور امام زہری حضرت عمر ؓ کی اس رائے کو لیتے ہیں کہ ایک دن کا سفر قصر کے لیے کافی ہے۔ حَسن بصری دو دن، اور امام ابو یوسف دو دن سے زیادہ کی مسافت میں قصر جائز سمجھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جس سفر میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوں (یعنی تقریباً 18 فرسنگ یا 54 میل) اس میں قصر کیا جاسکتا ہے۔ یہی رائے ابن عمر، ابن مسعود اور حضرت عثمان ؓ کی ہے۔ اثنائے سفر میں دوران قیام جس میں قصر کیا جاسکتا ہے مختلف ائمہ کے نزدیک مختلف ہے۔ امام احمد کے نزدیک جہاں آدمی نے چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا ہو وہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی۔ امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک جہاں چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو وہاں قصر جائز نہیں۔ امام اوزاعی 13 دن اور امام ابوحنیفہ 15 دن یا اس سے زیادہ کی نیت قیام پر پوری نماز ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ نبی ﷺ سے اس باب میں کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبوری دور ہوتے ہی وطن واپس ہوجائے گا تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ بلا تعین مدت قصر کیا جاتا رہے گا۔ صحابہ کرام سے بکثرت مثالیں ایسی منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حالات میں دو دو سال مسلسل قصر کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اسی پر قیاس کر کے قیدی کو بھی اس کے پورے زمانہ قید میں قصر کی اجازت دیتے ہیں۔ سورة النِّسَآء 133 ظاہریوں اور خارجیوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالت جنگ کے لیے ہے اور حالت امن کے سفر میں قصر کرنا قرآن کے خلاف ہے۔ لیکن حدیث میں مستند روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جب یہی شبہ نبی ﷺ کے سامنے پیش کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا صدقہ تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ۔”یہ قصر کی اجازت ایک انعام ہے جو اللہ نے تمہیں بخشا ہے، لہٰذا اس کے انعام کو قبول کرو۔“ یہ بات قریب قریب تواتر سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے امن اور خوف دونوں حالتوں کے سفر میں قصر فرمایا ہے۔ ابن عباس تصریح کرتے ہیں کہ ان النبی ﷺ خرج من المدینۃ الیٰ مکۃ لا یخاف الا رب العٰلمین فصلی رکعتین۔ ”نبی ﷺ مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے اور اس وقت رب العالمین کے سوا کسی کا خوف نہ تھا، مگر آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں“۔ اسی بنا پر میں نے ترجمہ میں خصوصاً کا لفظ قوسین میں بڑھا دیا ہے۔
Top