Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
رحمٰن کے (اصلی)بندے 78 وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں 79 اور جاہل ان کے مُنہ آئیں تو  کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ 80
سورة الْفُرْقَان 78 یعنی جس رحمان کو سجدہ کرنے کے لیے تم سے کہا جا رہا ہے اور تم اس سے انحراف کر رہے ہو اس کے پیدائشی بندے تو سب ہی ہیں، مگر اس کے محبوب و پسندیدہ بندے وہ ہیں جو شعوری طور پر بندگی اختیار کر کے یہ اور یہ صفات اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ نیز یہ کہ وہ سجدہ جس کی تمہیں دعوت دی جا رہی ہے اس کے نتائج یہ ہیں جو اس کی بندگی قبول کرنے والوں کی زندگی میں نظر آتے ہیں، اور اس سے انکار کے نتائج وہ ہیں جو تم لوگوں کی زندگی میں عیاں ہیں۔ اس مقام پر اصل مقصود سیرت و اخلاق کے دو نمونوں کا تقابل ہے۔ ایک وہ نمونہ جو محمد ﷺ کی پیروی قبول کرنے والوں میں پیدا ہو رہا تھا، اور دوسرا وہ جو جاہلیت پر جمے ہوئے لوگوں میں ہر طرف پایا جاتا تھا۔ لیکن اس تقابل کے لیے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ صرف پہلے نمونے کی نمایاں خصوصیات کو سامنے رکھ دیا، اور دوسرے نمونے کو ہر دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے ذہن پر چھوڑ دیا کہ وہ آپ ہی مقابل کی تصویر کو دیکھے اور آپ ہی دونوں کا موازنہ کرلے۔ اس کے بیان کی حاجت نہ تھی، کیونکہ وہ گرد و پیش سارے معاشرے میں موجود تھا۔ سورة الْفُرْقَان 79 یعنی تکبر کے ساتھ اکڑتے اور اینٹھتے ہوئے نہیں چلتے، جباروں اور مفسدوں کی طرح اپنی رفتار سے اپنا زور جتانے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ ان کی چال ایک شریف اور سلیم الطبع اور نیک مزاج آدمی کی سی چال ہوتی ہے۔ " نرم چال " سے مراد ضعیفانہ اور مریضانہ چال نہیں ہے، اور نہ وہ چال ہے جو ایک ریا کار آدمی اپنے انکسار کی نمائش کرنے یا اپنی خدا ترسی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تصنع سے اختیار کرتا ہے۔ نبی ﷺ خود اس طرح مضبوط قدم رکھتے ہوئے چلتے تھے کہ گویا نشیب کی طرف اتر رہے ہیں۔ حضرت عمر کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک جوان آدمی کو مریل چال چلتے دیکھا تو روک کر پوچھا کیا تم بیمار ہو ؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے درہ اٹھا کر اسے دھمکایا اور بولے۔ قوت کے ساتھ چلو۔ اس سے معلوم ہوا کہ نرم چال سے مراد ایک بھلے مانس کی سی فطری چال ہے نہ کہ وہ جو بناوٹ سے منکسرانہ بنائی گئی ہو یا جس سے خواہ مخواہ کی مسکنت اور ضعیفی ٹپکتی ہو۔ مگر غور طلب پہلو یہ ہے کہ آدمی کی چال میں آخر وہ کیا اہمیت ہے جس کی وجہ سے اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات گناتے ہوئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا ؟ اس سوال کو ذرا تامل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کی چال محض اس کے انداز رفتار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت وہ اس کے ذہن اور اس کی سیرت و کردار کی اولین ترجمان بھی ہوتی ہے۔ ایک عیار آدمی کی چال، ایک غنڈے بد معاش کی چال، ایک ظالم و جابر کی چال، ایک خود پسند متکبر کی چال، ایک باوقار مہذب آدمی کی چال، ایک غریب مسکین کی چال، اور اسی طرح مختلف اقسام کے دوسرے انسانوں کی چالیں ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ ہر ایک کو دیکھ کر بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس چال کے پیچھے کس طرح کی شخصیت جلوہ گر ہے۔ پس آیت کا مدعا یہ ہے کہ رحمان کے بندوں کو تو تم عام آدمیوں کے درمیان چلتے پھرتے دیکھ کر ہی بغیر کسی سابقہ تعارف کے الگ پہچان لو گے کہ یہ کس طرز کے لوگ ہیں۔ اس بندگی نے ان کی ذہنیت اور ان کی سیرت کو جیسا کچھ بنادیا ہے اس کا اثر ان کی چال تک میں نمایاں ہے۔ ایک آدمی انہیں دیکھ کر پہلی نظر میں جان سکتا ہے کہ یہ شریف اور حلیم اور ہمدرد لوگ ہیں، ان سے کسی شر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، بنی اسرائیل، حاشیہ 43۔ جلد چہارم، لقمان، حاشیہ 33)۔ سورة الْفُرْقَان 80 جاہل سے مراد ان پڑھ یا بےعلم آدمی نہیں، بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بد تمیزی کا برتاؤ کرنے لگے۔ رحمان کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان سے اور اسی طرح کی ہر بیہودگی کا جواب ویسی ہی بیہودگی سے نہیں دیتے بلکہ جو ان کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتا ہے وہ اس کو سلام کر کے الگ ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ۔ (القصص آیت 55) " اور جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظر انداز کردیتے ہیں، کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، سلام ہے تم کو، ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے "۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، القصص، حواشی 72۔ 78
Top