Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 40
وَ لَقَدْ اَتَوْا عَلَى الْقَرْیَةِ الَّتِیْۤ اُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ١ؕ اَفَلَمْ یَكُوْنُوْا یَرَوْنَهَا١ۚ بَلْ كَانُوْا لَا یَرْجُوْنَ نُشُوْرًا
وَلَقَدْ اَتَوْا : اور تحقیق وہ آئے عَلَي : پر الْقَرْيَةِ : بستی الَّتِيْٓ : وہ جس پر اُمْطِرَتْ : برسائی گئی مَطَرَ السَّوْءِ : بری بارش اَفَلَمْ يَكُوْنُوْا : تو کیا وہ نہ تھے يَرَوْنَهَا : اس کو دیکھتے بَلْ : بلکہ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے نُشُوْرًا : جی اٹھنا
اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بد ترین بارش برسائی گئی 53 تھی۔ کیا اِنہوں نے اس کا حال دیکھا نہ ہوگا؟ مگر یہ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔ 54
سورة الْفُرْقَان 53 یعنی قوم لوط کی بستی۔ بدترین بارش سے مراد پتھروں کی بارش ہے جس کا ذکر کئی جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ اہل حجاز کے قافلے فلسطین و شام جاتے ہوئے اس علاقے سے گزرتے تھے اور نہ صرف تباہی کے آثار دیکھتے تھے بلکہ آس پاس کے باشندوں سے قوم لوط کی عبرت ناک داستانیں بھی سنتے رہتے تھے۔ سورة الْفُرْقَان 54 یعنی چونکہ یہ آخرت کے قائل نہیں ہیں اس لیے ان آثار قدیمہ کا مشاہدہ انہوں نے محض ایک تماشائی کی حیثیت سے کیا، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کے قائل کی نگاہ اور اس کے منکر کی نگاہ میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک تماشا دیکھتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تاریخ مرتب کرتا ہے۔ دوسرا انہی چیزوں سے اخلاقی سبق لیتا ہے اور زندگی سے ماوراء حقیقتوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔
Top