Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 16
لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ خٰلِدِیْنَ١ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْئُوْلًا
لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : اس میں مَا يَشَآءُوْنَ : جو وہ چاہیں گے خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے كَانَ : ہے عَلٰي رَبِّكَ : تمہارے رب کے ذمے وَعْدًا : ایک وعدہ مَّسْئُوْلًا : مانگا ہوا
جس میں اُن کی ہر خواہش پُوری ہوگی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، جس کا عطا کرنا تمہارے ربّ کے ذمّے ایک واجب الادا وعدہ ہے۔ 23
سورة الْفُرْقَان 23 اصل الفاظ ہیں " وعدا مسئولا "، یعنی ایسا وعدہ جس کے پورا کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک شخص یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ جنت کا یہ وعدہ اور دوزخ کا یہ ڈراوا کسی ایسے شخص پر کیا اثر انداز ہوسکتا ہے۔ جو قیامت اور حشر و نشر اور جنت و دوزخ کا پہلے ہی منکر ہو ؟ اس لحاظ سے تو یہ بظاہر ایک بےمحل کلام محسوس ہوتا ہے، لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اگر معاملہ یہ ہو کہ میں ایک بات منوانا چاہتا ہوں اور دوسرا نہیں ماننا چاہتا تو بحث و حجت کا انداز کچھ اور ہوتا ہے۔ لیکن اگر میں اپنے مخاطب سے اس انداز میں گفتگو کر رہا ہوں کہ زیر بحث مسئلہ میری بات ماننے یا نہ ماننے کا نہیں بلکہ تمہارے اپنے مفاد کا ہے، تو مخاطب چاہے کیسا ہی ہٹ دھرم ہو، ایک دفعہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہاں کلام کا طرز یہی دوسرا ہے۔ اس صورت میں مخاطب کو خود اپنی بھلائی کے نقطہ نظر سے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ دوسری زندگی کے ہونے کا چاہے ثبوت موجود نہ ہو، مگر بہرحال اس کے نہ ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، اور امکان دونوں ہی کا ہے۔ اب اگر دوسری زندگی نہیں ہے، جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں، تو ہمیں بھی مر کر مٹی ہوجانا ہے اور آخرت کے قائل کو بھی۔ اس صورت میں دونوں برابر رہیں گے۔ لیکن اگر کہیں بات وہی حق نکلی جو یہ شخص کہہ رہا ہے تو یقیناً پھر ہماری خیر نہیں ہے۔ اس طرح یہ طرز کلام مخاطب کی ہٹ دھرمی میں ایک شگاف ڈال دیتا ہے، اور شگاف میں مزید وسعت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قیامت، حشر، حساب اور جنت و دوزخ کا ایسا تفصیلی نقشہ پیش کیا جانے لگتا ہے کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجدہ، آیت 52 حاشیہ 69۔ الاحقاف، آیت 10
Top