Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 75
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
اَفَتَطْمَعُوْنَ : کیا پھر تم توقع رکھتے ہو اَنْ : کہ يُؤْمِنُوْا : مان لیں گے لَكُمْ : تمہاری لئے وَقَدْ کَانَ : اور تھا فَرِیْقٌ : ایک فریق مِنْهُمْ : ان سے يَسْمَعُوْنَ : وہ سنتے تھے کَلَامَ اللہِ : اللہ کا کلام ثُمَّ : پھر يُحَرِّفُوْنَهُ : وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جو عَقَلُوْهُ : انہوں نے سمجھ لیا وَهُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
اے مسلمانو!اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے86 ؟حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہےکہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خُوب سمجھ بُوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔87
سورة الْبَقَرَة 86 یہ خطاب مدینے کے ان نَو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی ﷺ پر ایمان لائے تھے۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوّت، کتاب، ملائکہ، آخرت، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سنی تھیں۔ اور یہ بھی انہوں نے یہودیوں ہی سے سنا تھا کہ دنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔ یہی معلومات تھیں جن کی بنا پر اہل مدینہ نبی ﷺ کی نبوت کا چرچا سن کر آپ ﷺ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جوق در جوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمت ایمان میسّر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چناچہ یہی توقعات لے کر یہ پرجوش نَو مسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفین اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مشتبہ معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہل کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کرلیتے۔ اس بنا پر بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوت حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہوجاؤ گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سن کر تم پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، انہی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دین حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی امیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دوڑے چلے آئیں گے۔ سورة الْبَقَرَة 87 ”ایک گروہ“ سے مراد ان کے علما اور حاملین شریعت ہیں۔”کلام اللہ“ سے مراد تورات، زَبور اور وہ دوسری کتابیں ہیں جو ان لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔”تحریف“ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہُوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیّر و تبدّل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں۔۔۔۔ علماء بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلام الہٰی میں کی ہیں۔
Top