Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جُھک جاوٴ، تو سب45 جُھک گئے، مگر ابلیس46 نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔47
سورة الْبَقَرَة 45 “ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہ کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں، ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مُسَخَّر ہوجانے کا حکم دیا گیا۔ چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جارہا تھا، اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط، جس کام میں بھی انسان اپنے ان اختیارات کو، جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں، استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کرلینے کا موقع دے دیں، تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرہ عمل سے وہ کام متعلق ہو، وہ اپنے دائرے کی حد تک اس کا ساتھ دے۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے، نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے، دونوں صورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اذن دے رہے ہیں، تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایک فرمانروا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صو بےیا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے، تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں، ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں، اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے، اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام میں۔ البتہ جب جس کام کے بارے میں بھی فرمانروا کا اشارہ ہوجائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے، تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہوجاتا ہے اور انہیں ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتال کردی ہے۔ حتّٰی کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کو معزولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے، تو وہی ماتحت و خُدّام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑ یاں ڈال کر انہیں کشاں کشاں دارالفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سربسجُود ہوجانے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مسخّر ہوجانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ سورة الْبَقَرَة 46 اِبْلِیسْ لفظی ترجمہ ”انتہائی مایوس“۔ اصطلاحاً یہ اس جن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مُسَخَّر ہونے سے انکار کردیا اور اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسل انسانی کو بہکانے اور گمراہیوں کی طرف ترغیب دینے کا موقع دیا جائے۔ اسی کو ”الشَیْطَان“ بھی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت شیطان اور ابلیس بھی محض کسی مجرّد قوت کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ بھی انسان کی طرح ایک صاحب تشخّص ہستی ہے۔ نیز کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہ ہونی چاہیے کہ یہ فرشتوں میں سے تھا۔ آگے چل کر قرآن نے خود تصریح کردی ہے کہ وہ جِنّوں میں سے تھا، جو فرشتوں سے الگ، مخلوقات کی ایک مستقل صنف ہیں۔ سورة الْبَقَرَة 47 اِن الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ابلیس سجدے سے انکار کرنے میں اکیلا نہ تھا، بلکہ جِنّوں کی ایک جماعت نافرمانی پر آمادہ ہوگئی تھی اور ابلیس کا نام صرف اس لیے لیا گیا کہ وہ ان کا سردار اور اس بغاوت میں پیش پیش تھا۔ لیکن اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ”وہ کافروں میں سے تھا“۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جِنّوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش و نافرمان تھی، اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا۔ قرآن میں بالعموم ”شیاطین“ کا لفظ انہی جِنّوں اور ان کی ذرّیّت (نسل) کے لیے استعمال ہوا ہے، اور جہاں شیاطین سے مراد انسان مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہ ہو، وہاں یہی شیاطینِ جن مراد ہوتے ہیں۔
Top