Tafheem-ul-Quran - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
123اے بنی اسرائیل !یاد کرو میری وہ نعمت، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا، اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی
سوْرَةُ الْبَقَرَة 123 یہاں سے ایک دوسرا سلسلہ تقریر شروع ہوتا ہے، جسے سمجھنے کے لیے حسب ذیل امور کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے (1) حضرت نوح ؑ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ انہوں نے پہلے خود عراق سے مصر تک اور شام و فلسطین سے ریگستان عرب کے مختلف گوشوں تک برسوں گشت لگا کر اللہ کی اطاعت و فرماں برداری (یعنی اسلام) کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ پھر اپنے اس مشن کی اشاعت کے لیے مختلف علاقوں میں خلیفہ مقرر کیے۔ شرق اردن میں اپنے بھتیجے حضرت لوط ؑ کو، شام و فلسطین میں اپنے بیٹے اسحاق ؑ کو، اور اندرون عرب میں اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو مامور کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکّے میں وہ گھر تعمیر کیا، جس کا نام کعبہ ہے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ اس مشن کا مرکز قرار پایا۔ (2) حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں ایک حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد جو عرب میں رہی۔ قریش اور عرب کے بعض دوسرے قبائل کا تعلق اسی شاخ سے تھا۔ اور جو عرب قبیلے نسلاً حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد نہ تھے وہ بھی چونکہ ان کے پھیلائے ہوئے مذہب سے کم و بیش متاثر تھے، اس لیے وہ اپنا سلسلہ انہی سے جوڑتے تھے۔ دوسرے حضرت اسحاق ؑ کی اولاد، جن میں حضرات یعقوب ؑ ، یوسف ؑ ، موسیٰ ؑ ، دا ؤد ؑ ، سلیمان ؑ ، یحییٰ ؑ ، عیسیٰ ؑ اور بہت سے انبیا (علیہم السلام) پیدا ہوئے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، حضرت یعقوب ؑ کا نام چونکہ اسرائیل تھا اس لیے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ ان کی تبلیغ سے جن دوسری قوموں نے ان کا دین قبول کیا، انہوں نے یا تو اپنی انفرادیّت ہی ان کے اندر گم کردی، یا وہ نسلاً تو ان سے الگ رہے، مگر مذہباً ان کے متبع رہے۔ اسی شاخ میں جب پستی و تنزّل کا دور آیا، تو پہلے یہودیّت پیدا ہوئی اور پھر عیسائیت نے جنم لیا۔ (3) حضرت ابراہیم ؑ کا اصل کام دنیا کو اللہ کی اطاعت کی طرف بلانا اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے مطابق انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام درست کرنا تھا۔ وہ خود اللہ کے مطیع تھے، اس کے دیے ہوئے علم کی پیروی کرتے تھے، دنیا میں اس علم کو پھیلاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ سب انسان مالک کائنات کے مطیع ہو کر رہیں۔ یہی خدمت تھی، جس کے لیے وہ دنیا کے امام و پیشوا بنائے گئے تھے۔ ان کے بعد یہ امامت کا منصب ان کی نسل کی اس شاخ کو ملا، جو حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ اسی میں انبیا پیدا ہوتے رہے، اسی کو راہ راست کا علم دیا گیا، اسی کے سپرد یہ خدمت کی گئی کہ اس راہ راست کی طرف اقوام عالم کی رہنمائی کرے، اور یہی وہ نعمت تھی، جسے اللہ تعالیٰ بار بار اس نسل کے لوگوں کو یاد دلا رہا ہے۔ اس شاخ نے حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں بیت المَقْدِس کو اپنا مرکز قرار دیا۔ اس لیے جب تک یہ شاخ امامت کے منصب پر قائم رہی، بیت المقدس ہی دعوت الی اللہ کا مرکز اور خدا پرستوں کا قبلہ رہا۔ (4) پچھلے دس رکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے ان کی تاریخی فرد قرار داد جرم اور ان کی وہ موجودہ حالت، جو نزول قرآن کے وقت تھی، بےکم وکاست پیش کردی ہے اور ان کو بتادیا ہے کہ تم ہماری اس نعمت کی انتہائی ناقدری کرچکے ہو جو ہم نے تمہیں دی تھی۔ تم نے صرف یہی نہیں کیا کہ منصب امامت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا، بلکہ خود بھی حق اور راستی سے پھرگئے، اور اب ایک نہایت قلیل عنصر صالح کے سوا تمہاری پوری امت میں کوئی صلاحیّت باقی نہیں رہی ہے۔ (5) اس کے بعد اب انہیں بتایا جا رہا ہے کہ امامت ابراہیم ؑ کے نطفے کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اس سچّی اطاعت و فرماں برداری کا پھل ہے، جس میں ہمارے اس بندے نے اپنی ہستی کو گم کردیا تھا، اور اس کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں، جو ابراہیم ؑ کے طریقے پر خود چلیں اور دنیا کو اس طریقے پر چلانے کی خدمت انجام دیں۔ چونکہ تم اس طریقے سے ہٹ گئے ہو اور اس خدمت کی اہلیّت پوری طرح کھو چکے ہو، لہٰذا تمہیں امامت کے منصب سے معزول کیا جاتا ہے۔ (6) ساتھ ہی اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ جو غیر اسرائیلی قومیں موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السّلام کے واسطے سے حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑتی ہیں وہ بھی ابراہیمی طریقے سے ہٹی ہوئی ہیں، نیز مشکرین عرب بھی، جو ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) سے اپنے تعلق پر فخر کرتے ہیں، محض نسل و نسب کے فخر کو لیے بیٹھے ہیں۔ ورنہ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے طریقے سے اب ان کو دور کا واسطہ بھی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا ان میں سے بھی کوئی امامت کا مستحق نہیں ہے۔ (7) پھر یہ بات ارشاد ہوتی ہے کہ اب ہم نے ابراہیم ؑ کی دوسری شاخ، بنی اسماعیل ؑ میں وہ رسول ﷺ پیدا کیا ہے، جس کے لیے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے دعا کی تھی۔ اس کا طریقہ وہی ہے، جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ اور دوسرے تمام انبیا کا تھا۔ وہ اور اس کے پیرو تمام ان پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں جو دنیا میں خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی راستہ کی طرف دنیا کو بلاتے ہیں جس کی طرف سارے انبیا دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔ لہٰذا اب امامت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اس رسول کی پیروی کریں۔ (8) تبدیل امامت کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی قدرتی طور پر تحویل قبلہ کا اعلان ہونا بھی ضروری تھا۔ جب تک بنی اسرائیل کی امامت کا دور تھا، بیت المقدس مرکز دعوت رہا اور وہی قبلہء اہل حق بھی رہا۔ خود نبی ﷺ اور آپ کے پیرو بھی اس وقت تک بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رہے۔ مگر جب بنی اسرائیل اس منصب سے باضابطہ معزول کردیے گئے، تو بیت المقدس کی مرکزیّت آپ سے آپ ختم ہوگئی۔ لہٰذا اعلان کیا گیا کہ اب وہ مقام دین الہٰی کا مرکز ہے، جہاں سے اس رسول کی دعوت کا ظہور ہوا ہے۔ اور چونکہ ابتدا میں ابراہیم ؑ کی دعوت کا مرکز بھی یہی مقام تھا، اس لیے اہل کتاب اور مشرکین، کسی کے لیے بھی تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ قبلہ ہونے کا زیادہ حق کعبے ہی کو پہنچتا ہے۔ ہٹ دھرمی کی بات دوسری ہے کہ وہ حق کو حق جانتے ہوئے بھی اعتراض کیے چلے جائیں۔
Top