Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 75
اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَیٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اِذًا : اس صورت میں لَّاَذَقْنٰكَ : ہم تمہیں چکھاتے ضِعْفَ : دوگنی الْحَيٰوةِ : زندگی وَضِعْفَ : اور دوگنی الْمَمَاتِ : موت ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُ : تم نہ پاتے لَكَ : اپنے لیے عَلَيْنَا : ہم پر (ہمارے مقابلہ میں) نَصِيْرًا : کوئی مددگار
لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں دُنیا میں بھی دوہرے عذاب کا مزّہ چکھاتے اور آخرت میں بھی دوہرے عذاب کا، پھر ہمارےمقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔88
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 88 اللہ تعالیٰ اس ساری روداد پر تبصرہ کرتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرماتا ہے۔ ایک یہ کہ اگر تم حق کو حق جان لینے کے بعد باطل سے کوئی سمجھوتہ کرلیتے تو یہ بگڑی ہوئی قوم تو ضرور تم سے خوش ہوجاتی، مگر خدا کا غضب تم پر بھڑک اٹھتا اور تمہیں دنیا و آخرت، دونوں میں دہری سزا دی جاتی۔ دوسرے یہ کہ انسان خواہ وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، خود اپنے بل بوتے پر باطل کے ان طوفانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا جب تک کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق شامل حال نہ ہو۔ یہ سراسر اللہ کا بخشا ہوا صبر ثبات تھا جس کی بدولت نبی ﷺ حق و صداقت کے مؤقف پر پہاڑ کی طرح جمے رہے اور کوئی سیلاب بلا آپ کو بال برابر بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکا۔
Top