Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا (حقیقی)ربّ تو وہ ہے جو سمندر میں تمہاری کشتی چلاتا ہے82 تا کہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔83 حقیقت یہ ہے کہ وہ تمہارے حال پر نہایت مہربان ہے
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 82 اوپر کے سلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابلیس اول روز آفرنیش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تاکہ اس کو آرزؤوں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس کر راہ راست سے ہٹا لے جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا مستحق نہی ہے جو اسے خدا نے عطا کی ہے۔ اس خطرے سے اگر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل (مدار توکل) بنائے۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا۔۔ اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 83 یعنی ان معاشی اور تمدنی اور علمی و ذہنی فوائد سے متمتع ہونے کی کوشش کرو جو بحری سفروں سے حاصل ہوتے ہیں۔
Top