Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 55
وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ : جو کوئی فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور لَقَدْ فَضَّلْنَا : تحقیق ہم نے فضیلت دی بَعْضَ : بعض النَّبِيّٖنَ : (جمع) نبی) عَلٰي بَعْضٍ : بعض پر وَّاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی دَاوٗدَ : داو ود زَبُوْرًا : زبور
تیرا ربّ زمین اور آسمانوں کی مخلوقات کو زیادہ جانتا ہے۔ ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض سے بڑھ کر مرتبے دیے62، اور ہم نے ہی داوٴد ؑ کو زَبور دی تھی۔63
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 62 اس فقرے کے اصل مخاطب کفار مکہ ہیں، اگرچہ بظاہر خطاب نبی ﷺ سے ہے۔ جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتا ہے، آنحضرت ﷺ کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کے آپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک معمولی انسان سمجھتے تھے، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس ان پر ختم ہوگئی ہے۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعوی سن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کرچکے ہیں۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 63 یہاں خاص طور پر داؤد ؑ کی زبور دیے جانے کا ذکر غالبا اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد ؑ بادشاہ تھے، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں۔ نبی ﷺ کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری و خدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے، کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چل پھر کر خریدوفروخت کرتے تھے، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہیں۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلق پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں۔ وہ کہاں اور گھر کے آٹے دال کی فکر کہاں ! اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہوگی۔ مگر اس کے باوجود داؤد ؑ کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا۔
Top