Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 54
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ یَّشَاْ یُعَذِّبْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ وَكِیْلًا
رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِكُمْ : تمہیں اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يَرْحَمْكُمْ : تم پر رحم کرے وہ اَوْ : یا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے تمہیں بھیجا عَلَيْهِمْ : ان پر وَكِيْلًا : داروغہ
تمہارا ربّ تمہارےحال سے زیادہ واقف ہے ، وہ چاہے تو تم پر رحم کرے اور چاہے تو تمہیں عذاب دے دے۔60 اور اے نبی ؐ ، ہم نے تم کو لوگوں پر حوالہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔61
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 60 یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے۔ اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا اور فلاں شخص بخشا جائے گا۔ غالبا یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آکر مسلمان کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے، یا تم کو خدا عذاب دے گا۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 61 یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کہ حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی ﷺ سے اس قسم کی کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو۔
Top