Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 48
اُنْظُرْ كَیْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا
اُنْظُرْ : تم دیکھو كَيْفَ ضَرَبُوْا : کیسی انہوں نے چسپاں کیں لَكَ : تمہارے لیے الْاَمْثَالَ : مثالیں فَضَلُّوْا : سو وہ گمراہ ہوگئے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : پس وہ استطاعت نہیں پاتے سَبِيْلًا : کسی اور راستہ
دیکھو، کیسی باتیں ہیں جو یہ لوگ تم پر چھانٹتے ہیں۔ یہ بھٹک گئے ہیں۔ اِنہیں راستہ نہیں ملتا۔54
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 54 یعنی یہ تمہارے متعلق کوئی ایک رائے ظاہر نہیں کرتے بلکہ مختلف اوقات میں بالکل مختلف اور متضاد باتیں کہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں تم خود جادوگر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم پر کسی اور نے جادو کردیا ہے۔ کبھی کہتے ہیں تم شاعر ہو۔ کبھی کہتے ہیں تم مجنون ہو۔ ان کی یہ متضاد باتیں خود اس بات کا ثبوت ہیں کہ حقیقت ان کو معلوم نہیں ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ آئے دن ایک نئی بات چھانٹنے کے بجائے کوئی ایک ہی قطعی رائے ظاہر کرتے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے کسی قول پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ایک الزام رکھتے ہیں۔ پھر آپ ہی محسوس کرتے ہیں کہ یہ چسپاں نہیں ہوتا۔ اس کے بعد دوسرا الزام لگاتے ہیں۔ اور اسے بھی لگتا ہوا نہ پا کر ایک تیسرا الزام تصنیف کردیتے ہیں۔ اس طرح ان کا ہر نیا الزام ان کے پہلے الزام کی تردید کردیتا ہے، اور اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ صداقت سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے، محض عداوت کی بنا پر ایک سے ایک بڑھ کر جھوٹ گھڑے جا رہے ہیں۔
Top