Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 46
وَّ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا
وَّجَعَلْنَا : اور ہم نے ڈال دئیے عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اَكِنَّةً : پردے اَنْ : کہ يَّفْقَهُوْهُ : وہ نہ سمجھیں اسے وَ : اور فِيْٓ : میں اٰذَانِهِمْ : ان کے کان وَقْرًا : گرانی وَاِذَا : اور جب ذَكَرْتَ : تم ذکر کرتے ہو رَبَّكَ : اپنا رب فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَحْدَهٗ : یکتا وَلَّوْا : وہ بھاگتے ہیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِهِمْ : اپنی پیٹھ ٠ جمع) نُفُوْرًا : نفرت کرتے ہوئے
اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھادیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔51 اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی ربّ کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔52
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 51 یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کے دل پر کفل چڑھ جائیں اور اس کے کان اس دعوت کے لیے بند ہوجائیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تو دعوت ہی اس بنیاد پر ہے کہ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ یہاں اگر کوئی حساب لینے والا جواب طلب کرنے والا نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھو کہ تم کسی کے سامنے ذمہ وار و جواب دہ ہو ہی نہیں۔ یہاں اگر شرک، دہریت، کفر، توحید، سب ہی نظریے آزادی سے اختیار کیے جاسکتے ہیں، اور دنیوی لحاظ سے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا، تو نہ سمجھو کہ ان کے کوئی الگ الگ مستقل نتائج ہیں ہی نہیں۔ یہاں اگر فسق و فجور اور اطاعت وتقوی، ہر قسم کے رویے اختیار کیے جاسکتے ہیں اور عملا ان میں سے کسی رویے کا کوئی ایک لازمی نتیجہ رونما نہیں ہوتا تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی اٹل اخلاقی قانون سرے سے ہے ہی نہیں۔ دراصل حساب طلبی و جواب دہی سب کچھ ہے، مگر وہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہوگی۔ توحید کا نظریہ برحق اور باقی سب نظریات باطل ہیں، مگر ان کے اصلی اور قطعی نتائج حیات بعد الموت میں ظاہر ہوں گے اور وہیں وہ حقیقت بےنقاب ہوگی جو اس پر وہ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ ایک اٹل اخلاقی قانون ضرور ہے جس کے لحاظ سے فسق و نقصان رساں اور طاعت فائدہ بخش ہے، مگر اس قانون کے مطابق آخری اور قطعی فیصلے بھی بعد کی زندگی ہی میں ہوں گے۔ لہٰذا تم دنیا کی اس عارضی زندگی پر فریفتہ نہ ہو اور اس کے مشکوک نتائج پر اعتماد نہ کرو، بلکہ اس جواب دہی پر نگاہ رکھو جو تمہیں آخرکار اپنے خدا کے سامنے کرنی ہوگی، اور وہ صحیح اعتقادی اور اخلاقی رویہ اختیار کرو جو تمہیں آخرت کے امتحان میں کامیاب کرے۔ یہ ہے قرآن کی دعوت۔ اب یہ بالکل ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو شخص سرے سے آخرت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کا سارا اعتماد اسی دنیا کے مظاہر اور محسوسات و تجربات پر ہے، وہ کبھی قرآن کی اس دعوت کو ناقابل التفات نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے پردہ گوش سے تو یہ آواز ٹکرا ٹکرا کر ہمیشہ اچٹتی ہی رہے گی، کبھی دل تک پہنچنے کی راہ نہ پائے گی۔ اسی نفسیاتی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو آخرت کو نہیں مانتا، ہم اس کے دل اور اس کے کان قرآن کی دعوت کے لیے بند کردیتے ہیں۔ یعنی یہ ہمارا قانون فطرت ہے جو اس پر یوں نافذ ہوتا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ کفار مکہ کا اپنا قول تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر الٹ دیا ہے۔ سورة حم سجدہ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ " وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا اِلَیْہِ وَفِی اٰذَانِنَا وَقْرٌوَّ مِنْۢ بَینِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ (آیت 5) یعنی وہ کہتے ہیں کہ " اے محمد ﷺ ، تو جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہوگیا ہے۔ پس تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جا رہے ہیں“۔ یہاں ان کے اس قول کو دہرا کر اللہ تعالیٰ یہ بتارہا ہے کہ یہ کیفییت جسے تم اپنی خوبی سمجھ کر بیان کر رہے ہو، تو دراصل ایک پھٹکار ہے جو تمہارے انکار آخرت کی بدولت ٹھیک قانون فطرت کے مطابق تم پر پڑی ہے۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 52 یعنی انہیں یہ بات سخت ناگوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو رب قرار دیتے ہو، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ ان کو یہ وہابیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر۔ نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف۔ نہ ان شخصیتوں کی خدمت میں کوئی خراج تحسین جن پر، ان کے خیال میں، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علم غیب ہے تو اللہ کو، قدرت ہے تو اللہ کی، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے، بیماریوں کو شفا نصیب ہوتی ہے، کاروبار چمکتے ہیں، اور منہ مانگی مرادیں بر آتی ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزمر، آیت 45، حاشیہ 46)
Top