Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 42
قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗۤ اٰلِهَةٌ كَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِی الْعَرْشِ سَبِیْلًا
قُلْ : کہ دیں آپ لَّوْ كَانَ : اگر ہوتے مَعَهٗٓ : اسکے ساتھ اٰلِهَةٌ : اور معبود كَمَا : جیسے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں اِذًا : اس صورت میں لَّابْتَغَوْا : وہ ضرور ڈھونڈتے اِلٰى : طرف ذِي الْعَرْشِ : عرش والے سَبِيْلًا : کوئی راستہ
اے محمد ؐ ، ان سے کہو کہ اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی ضرور کوشش کرتے۔ 47
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 47 یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدائی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ، ہر معاملے میں، ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ ناگزیر تھا کہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کردی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فورا ہی خداوند عالم بن جانے کی فکر شروع کردیتا۔ جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اس وقت تک پیدا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کے لیے کام نہ کریں، اس کے متعلق صرف ایک انتہاء درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ قصور کرسکتا ہے کہ اس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہونگے۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے۔
Top