Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا١ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
وَلَا تَمْشِ : اور نہ چل فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَرَحًا : اکڑ کر (اتراتا ہوا) اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَخْرِقَ : ہرگز نہ چیر ڈالے گا الْاَرْضَ : زمین وَلَنْ تَبْلُغَ : اور ہرگز نہ پہنچے گا الْجِبَالَ : پہاڑ طُوْلًا : بلندی
زمین میں اکڑ کر نہ چلو، تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو، نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ 43
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 43 مطلب یہ ہے کہ جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو۔ یہ ہدایت بھی انفرادی طرز عمل اور قومی رویے دونوں پر یکساں حاوی ہے۔ اور یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ طیبہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی اس کے فرماں رواؤں، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ حتی کہ عین حالت جنگ میں بھی کبھی ان کی زبان سے فخر و غرور کی کوئی بات نہ نکلی۔ ان کی نشست و برخاست، چال ڈھال، لباس، مکان، سواری اور عام برتاؤ میں انکسار و تواضع، بلکہ فقیری و درویشی کی شان پائی جاتی تھی، اور جب وہ فاتح کی حیثیت سے کسی شہر میں داخل ہوتے تھے اس وقت بھی اکڑ اور بتختر سے کبھی اپنا رعب بٹھانے کی کوشش نہ کرتے تھے۔
Top