Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 110
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ١ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ۚ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا
قُلِ : آپ کہ دیں ادْعُوا : تم پکارو اللّٰهَ : اللہ اَوِ : یا ادْعُوا : تم پکارو الرَّحْمٰنَ : رحمن اَيًّا مَّا : جو کچھ بھی تَدْعُوْا : تم پکارو گے فَلَهُ : تو اسی کے لیے لْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى : سب سے اچھے نام وَلَا تَجْهَرْ : اور نہ بلند کرو تم بِصَلَاتِكَ : اپنی نماز میں وَ : اور لَا تُخَافِتْ : نہ بالکل پست کرو تم بِهَا : اس میں وَابْتَغِ : اور ڈھونڈو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : راستہ
اے نبیؐ ، اِن سے کہو، اللہ کہہ کر پُکارو یا رحمان کہہ کر، جس نام سے بھی پُکارو اُس کے لیے سب اچھے نام ہیں۔123 اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو۔124
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 123 یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے " اللہ " کا نام تو ہم نے سنا تھا، مگر یہ " رحمان " کا نام تم نے کہاں سے نکالا ؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 124 ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ مکہ میں جب نبی ﷺ یا دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کردیتے تھے۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکہ سے حالات سے دو چار ہونا پڑے، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
Top