Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سُناوٴ، اور اسے ہم نے(موقع موقع سے)بتدریج اُتارا ہے۔119
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 119 یہ مخالفین کے اس شبہہ کا جواب ہے کہ اللہ میاں کو پیغام بھیجنا تھا تو پورا پیغام بیک وقت کیوں نہ بھیج دیا ؟ یہ آخر ٹھیر ٹھیر کر تھوڑا تھوڑا پیغام کیوں بھیجا جا رہا ہے ؟ کیا خدا کو بھی انسانوں کی طرح سوچ سوچ کر بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ؟ اس شبہہ کا مفصل جواب سورة نحل آیات 101، 102 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کرچکے ہیں، اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔
Top