Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
اے محمد ؐ ، اِن سے کہو، اگر کہیں میرے ربّ کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک رکھتے۔ واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔112
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 112 یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت 55 " وَ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ " میں گزر چکا ہے۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی ﷺ کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل وشرف ماننا پڑتا تھا، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کردی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے۔
Top