Tafheem-ul-Quran - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے يٰٓاَيُّھَا : اے وہ الَّذِيْ نُزِّلَ : وہ جو کہ اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر الذِّكْرُ : یاد دہانی (قرآن) اِنَّكَ : بیشک تو لَمَجْنُوْنٌ : دیوانہ
یہ لوگ کہتے ہیں”اَے وہ شخص جس پر ذکر3 نازل ہوا ہے،4 تُو یقیناً دیوانہ ہے
سورة الْحِجْر 3 ”ذکر“ کا لفظ قرآن میں اصطلاحا کلام الہٰی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آتا ہے۔ پہلے جتنی کتابیں انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی ”ذکر“ تھیں اور یہ قرآن بھی ”ذکر“ ہے۔ ذکر کے اصل معنی ہیں ”یاد دلانا“ ”ہوشار کرنا“ اور ”نصیحت کرنا“۔ سورة الْحِجْر 4 یہ فقرہ وہ لوگ طنز کے طور پر کہتے تھے۔ ان کو تو یہ تسلیم ہی نہیں تھا کہ یہ ذکر نبی ﷺ پر نازل ہوا ہے۔ نہ اسے تسلیم کرلینے کے بعد وہ آپ کو دیوانہ کہہ سکتے تھے۔ دراصل ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ”اے وہ شخص جس کا دعوی یہ ہے کہ مجھ پر یہ ذکر نازل ہوا ہے“۔ یہ اسی طرح کی بات ہے جیسی فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت سننے کے بعد اپنے درباریوں سے کہی تھی کہ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ، ”یہ پیغمبر صاحب جو تم لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں، ان کا دماغ درست نہیں ہے“۔
Top