سورة الْفَاتِحَة 2
جیسا کہ ہم دیباچہ میں بیان کرچکے ہیں سورة فاتحہ اصل میں تو ایک دعا ہے، لیکن دعا کی ابتدا اس ہستی کی تعریف سے کی جا رہی ہے جس سے ہم دعا مانگنا چاہتے ہیں۔ یہ گویا اس امر کی تعلیم ہے کہ دعا جب مانگو تو مہذب طریقہ سے مانگو۔ یہ کوئی تہذیب نہیں ہے کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کردیا۔ تہذیب کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے دعا کر رہے ہو، پہلے اس کی خوبی کا، اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو۔
تعریف ہم جس کی بھی کرتے ہیں، دو وجوہ سے کیا کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بجائے خود حسن و خوبی اور کمال رکھتا ہو، قطع نظر اس سے کہ ہم پر اس کے ان فضائل کا کیا اثر ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہمارا محسن ہو اور ہم اعتراف نعمت کے جذبہ سے سرشار ہو کر اس کی خوبیاں بیان کریں۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ان دونوں حیثیتوں سے ہے۔ یہ ہماری قدر شناسی کا تقاضہ بھی ہے اور احسان شناسی کا بھی کہ ہم اس کی تعریف میں رطب اللّسان ہوں۔
اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ " تعریف اللہ ہی " کے لیے ہے۔ یہ بات کہہ کر ایک بڑی حقیقت پر سے پردہ اٹھا یا گیا ہے، اور وہ حقیقت ایسی ہے جس کی پہلی ہی ضرب سے مخلوق پرستی کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ دنیا میں جہاں، جس چیز اور جس شکل میں بھی کوئی حسن، کوئی خوبی، کوئی کمال ہے، اس کا سر چشمہ اللہ ہی کی ذات ہے۔ کسی انسان، کسی فرشتے، کسی سیارے، غرض کسی مخلوق کا کمال بھی ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ کا عطیہ ہے۔ پس اگر کوئی اس کا مستحق ہے کہ ہم اس کے گرویدہ اور پرستار، احسان مند اور شکر گزار، نیاز مند اور خدمت گار بنیں تو وہ خالق کمال ہے نہ کہ صاحب کمال۔
سورة الْفَاتِحَة 3
رب کا لفظ عربی زبان میں تین معنوں میں بولا جاتا ہے۔(1) مالک اور آقا۔(2) مربیّ ، پرورش کرنے والا، خبر گیری اور نگہبانی کرنے والا۔(3) فرمانروا، حاکم، مدبر اور منتظم۔ اللہ تعالیٰ ان سب معنوں میں کائنات کا رب ہے۔