Tadabbur-e-Quran - Nooh : 26
وَ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ دَیَّارًا
وَقَالَ نُوْحٌ : اور کہا نوح نے رَّبِّ لَا تَذَرْ : اے میرے رب نہ تو چھوڑ عَلَي : پر الْاَرْضِ : زمین (پر) مِنَ الْكٰفِرِيْنَ : کافروں میں سے دَيَّارًا : کوئی بسنے والا
اور نوح نے دعا کی، اے میرے رب ! تو زمین پر ان کافروں میں سے ایک متنفس کو بھی نہ چھوڑ۔
دعا کی تکمیل: تضمین کے بعد یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا پھر شروع ہو گئی چنانچہ ’قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ‘ کے الفاظ نے اس کو تضمین سے ممتاز کر دیا۔ اگر تضمین بیچ میں نہ آ گئی ہوتی تو ان الفاظ کے اعادے کی ضرورت نہ ہوتی۔ التباس سے بچنے کے لیے ان کا اعادہ ضروری ہوا۔ فرمایا کہ اے رب! اب تو زمین پر کافروں میں سے ایک متنفس کو بھی نہ چھوڑ۔ عربی میں اگر کہیں کہ ’مَا فِی الدَّار دَیّار‘ تو اس کے معنی ہوں گے کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ اس عمومیت کے ساتھ بددعا کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا کہ رسول پوری قوم کو اپنے جھاج میں پھٹک لیتا ہے اور وہ اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہوتا ہے جس کے بعد سنت الٰہی کے مطابق عذاب ہی کا مرحلہ باقی رہ جاتا ہے۔ فرمایا کہ اب اگر تو ان کو چھوڑے رکھے گا تو یہ کافروں اور نابکاروں ہی کو جنم دیں گے۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ اگرچہ ہر بچہ فطرۃ اللہ پر ہوتا ہے لیکن اس کے بناؤ یا بگاڑ میں سب سے زیادہ دخل والدین کی تربیت اور معاشرہ و ماحول کے اثرات کا ہوتا ہے۔ ماحول اچھا ہو گا تو امید ہے کہ بچہ ایمان و اسلام پر پروان چڑھے گا اور اگر ماحول کافرانہ ہوا تو جیسا کہ ’ابواہ یھودانہٖ وینصِّرانہٖ‘ والی حدیث سے واضح ہے، بچہ بھی ماحول کے رنگ ہی میں رنگ جائے گا۔ حضرت نوحؑ نے اپنے معاشرہ کو اچھی طرح پھٹک کے دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان اور نیکی کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے اس وجہ سے انھوں نے فرمایا کہ یہ لوگ اب صرف نابکاروں اور کافروں ہی کو جنم دیں گے۔ ان کی کوکھ سے اب کوئی مومن و مسلم جنم لینے والا نہیں ہے۔
Top