Tadabbur-e-Quran - Nooh : 24
وَ قَدْ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا١ۚ۬ وَ لَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا
وَقَدْ : اور تحقیق اَضَلُّوْا : انہوں نے بھٹکا دیا كَثِيْرًا : بہت بسوں کو وَلَا : اور نہ تَزِدِ : تو اضافہ کر الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کو اِلَّا ضَلٰلًا : مگر گمراہی میں
اور انہوں نے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر ڈالا۔ اور اب تو ان گمراہی میں ہی اضافہ کر۔
حضرت نوح کی بددعا: یہ حضرت نوح علیہ السلام نے قوم کے لیڈروں کی روش پر غم و اندوہ کا اظہار فرمایا ہے اور ساتھ ہی ان کی زبان سے بے ساختہ یہ بددعا بھی نکلی کہ اے رب، اب ان کی ضلالت ہی میں اضافہ کر تاکہ عذاب کی سمت میں ان کی تیز روی مزید بڑھ جائے اور جلد سے جلد ان کی عفونت سے زمین پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین پر بار بنے رہنے کے لیے نہیں پیدا کیا ہے بلکہ حصول سعادت کی جدوجہد کے لیے پیدا کیا ہے۔ زمین پر اس کو اسی وقت تک باقی رہنے کا حق ہے جب تک اس کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی رہے۔ یہ رمق بالکل ختم ہو جائے تو پھر اس کا وجود زمین کے لیے لعنت ہے۔ رسول، خلق پر اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے چھاج میں پھٹکے جانے کے بعد بھس اور دانے میں پورا امتیاز ہو جاتا ہے چنانچہ وہ دانوں کو الگ کر کے بھس کو جلا دیتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے تیسرے مرحلے میں پہنچ کر دیکھ لیا کہ اس قوم میں جتنا جوہر تھا وہ نکل آیا ہے۔ اب جو باقی ہے اس کی کوئی افادیت نہیں۔ اس کے مٹ جانے ہی میں خیر ہے۔ اسی مرحلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی قوم فرعون کے لیے بددعا کی جو سورۂ یونس میں بدیں الفاظ مذکور ہے: رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰٓی قُلُوۡبِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوۡا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الۡاَلِیْمَ (یونس ۱۰: ۸۸) ’’اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر پٹیاں باندھ دے کہ اب وہ دردناک عذاب دیکھ ہی کر ایمان لائیں۔‘‘
Top