Tadabbur-e-Quran - Nooh : 11
یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ
يُّرْسِلِ : بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان کو عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : خوب برسنے والا (بنا کر)
وہ تم پر اپنے ابر رحمت کے دو نگڑے برسائے گا
استغفار کی برکت: ’یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْْکُمۡ مِّدْرَارًا‘۔ لفظ ’سَمَآءٌ‘ جیسا کہ اس کے محل میں وضاحت ہو چکی ہے، ابرباراں کے لیے بھی آتا ہے۔ ’مِدْرَارًا‘ کے معنی ’کثیر الدر‘ یعنی خوب برسنے والے کے ہیں۔ یہ مذکر و مؤنث دونوں کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا استغفار تمہارے رب کی رحمت کو جوش میں لائے گا اور وہ تمہیں رزق کی فراوانی اور مال و اولاد کی کثرت سے بہرہ مند کرے گا۔ مشرکین کے بعض اوہام کی تردید: مشرکین اس وہم میں بھی مبتلا تھے کہ بارش ان کے دیوتا برساتے ہیں اور اولاد ان کی برکت و عنایت سے ملتی ہے اس وجہ سے وہ ان کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے یا سننے سے بہت ڈرتے تھے۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ اشارہ ہے کہ انھوں نے رسولوں کی مخالفت اس اندیشہ کی بنا پر بھی کی ہے کہ وہ بتوں کی ہجو کرتے ہیں جس سے وہ ناراض ہو جائیں گے اور اپنی عنایات سے خلق کو محروم کر دیں گے۔ یہاں تک کہ رسولوں کے دور میں اگر انھیں کوئی آزمائش پیش آئی تو اس کو انھوں نے العیاذ باللہ رسول اور اس کے ساتھیوں ہی کی نحوست پر محمول کیا کہ انھوں نے دیوتاؤں کو ناراض کر دیا ہے اس وجہ سے فلاں افتاد پیش آئی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے اس ارشاد سے ان کے اس وہم پر بھی ضرب لگائی کہ بارش اور مال و اولاد کے خزانوں پر تمہارے دیوی دیوتا قابض نہیں ہیں کہ تم نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تم کو ان نعمتوں سے محروم کر دیں گے۔ ان سب چیزوں کا مالک اللہ ہی ہے اور اس کی رحمت توبہ و استغفار سے حاصل ہوتی ہے۔ تم یہ کام کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح اس کی رحمت کی گھٹائیں امنڈ امنڈ کر آتیں اور تم پر برستی ہیں! سورۂ ہود آیت ۵۲ میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔ یہاں حکمت دین کا ایک نکتہ بھی حرزجاں بنانے کے لائق ہے جو سیدنا عمر فاروقؓ کے افادات سے ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ نماز استسقاء میں صرف استغفار پر کفایت فرمائی، دعا میں بارش کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمومنین! آپ نے دعا میں بارش کا تو کوئی ذکر کیا ہی نہیں! امیر المومنینؓ نے انہی آیات کی روشنی میں لوگوں کو بتایا کہ خدا کی رحمت کی کلید استغفار ہے اور یہ کام ہم نے کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ استغفار ہی جالب رحمت بنے گا۔ ہماری ضرورت اور احتیاج کو ہمارا رب خود ہم سے بہتر جانتا ہے۔
Top