Tadabbur-e-Quran - Nooh : 10
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ
فَقُلْتُ : پھر میں نے کہا اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنے رب سے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ غَفَّارًا : بخشنے والا ہے
میں نے کہا، اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
دعوت میں دل سوزی: یہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اس دعوت کی وضاحت فرمائی ہے جو نہایت دل سوزی اور محبت سے انھوں نے اپنی قوم کو دی۔ فرمایا کہ میں نے ان کو سمجھایا کہ لوگو، اپنے رب سے اپنے گناہوں کی مغفرت مانگو۔ ہر چند تمہارے گناہ بہت ہیں لیکن اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ وہ بڑا ہی مغفرت فرمانے والا ہے۔ ’اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا‘ میں یہ مضمون بھی مضمر ہے کہ اس کی مغفرت حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف تمہارا رجوع ہی کافی ہے، تمہارے مزعومہ دیویوں دیوتاؤں کی سفارش کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بڑا ہی غفار ہے۔ صدق دل سے مغفرت مانگنے والوں کو کسی سفارش کے بغیر وہ خود ہی اپنے دامن رحمت میں چھپا لیتا ہے۔ خدا سے بڑا کوئی غفار نہیں کہ اس کی سفارش چاہی جائے: یہ امر یہاں واضح رہے کہ ہر دور کے مشرکین اس غلط فہمی میں بھی مبتلا رہے ہیں کہ خدا کی سرکار چونکہ بہت بلند ہے اس وجہ سے جب تک کچھ سفارشی نہ ہوں ہر شخص کے لیے اس سے اپنی التجا و درخواست منظور کرانا ممکن نہیں ہے۔ ’مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَا إِلَی اللہِ زُلْفٰی‘ (الزمر ۳۹: ۳) (ہم تو ان معبودوں کو صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا سے قریب تر کر دیں) ان کے اسی خیال کی ترجمانی ہے۔ قرآن نے ان کے اس وہم کی مختلف پہلوؤں سے تردید کی ہے۔ یہاں ’اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا‘ میں بھی اس کی تردید ہے کہ جب وہ خود ہی سب سے بڑا مغفرت فرمانے والا ہے تو اس سے بڑا غفار کون ہے جس کو اس کے پاس کوئی سفارشی بنا کر لے جائے گا۔
Top