Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 102
وَ مَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ١ۚ وَ اِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ
وَ : اور مَا وَجَدْنَا : ہم نے نہ پایا لِاَكْثَرِهِمْ : ان کے اکثر میں مِّنْ عَهْدٍ : عہد کا پاس وَاِنْ : اور درحقیقت وَّجَدْنَآ : ہم نے پائے اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَفٰسِقِيْنَ : نافرمان۔ بدکردار
اور ہم نے ان میں سے اکثر میں عہد کی استواری نہیں پائی۔ ان میں سے اکثر بدعہد ہی نکلے
وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ ۚ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِيْنَ۔ یہ دلوں پر مہر لگنے کا نتیجہ اور اثر بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی گروہ کے دلوں پر مہر کردیا کرتا ہے تو ان کی مت اس طرح ماری جاتی ہے کہ کوئی نشانی بھی ان کو دکھاؤ وہ اپنی جگہ سے کھسکنے کا نام نہیں لیتے۔ بار بار قسمیں کھا کھا کے عہد کریں گے کہ اگر فلاں معجزہ دکھا دو تو ہم مان لیں گے لیکن وہ معجزہ بھی دکھا دیا جائے تو کسی نئے معجزے کا مطالبہ شروع کردیں گے اور اپنے پہلے عہد سے پھرجائیں گے۔ لفظ ‘ فاسق ’ یہاں عہد شکن کے مفہوم میں ہے۔ یہی مضمون زیادہ وضاحت سے سورة انعام میں یوں بیان ہوا ہے۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا قُلْ إِنَّمَا الآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لا يُؤْمِنُونَ (109) وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (110): اور وہ بڑی پکی قسمیں کھا کے یقین دلاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ ان کو دکھایا جائے تو وہ ضور اس پر ایمان لے آئیں گے۔ کہہ دو کہ معجزے تو اللہ ہی کے پاس ہیں۔ اور تمہی کیا پتہ کہ اگر معجزہ بھی آجائے گا جب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں اور ہم ان کے دلوں اور ان کی بصیرتوں کو اسی طرح الٹ دیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہیں لائے اور ان کی سرکشی میں ان کو بھٹکتا چھوڑ دیں گے)۔ آگے حضرت موسیٰ اور فرعون کی سرگزشت میں بھی یہی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گئی ہے۔ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ ۚ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ۔ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ يَنْكُثُوْنَ (جب ان پر کوئی آفت آتی وہ کہتے، اے موسیٰ ، ہمارے واسطے اپنے رب سے، اس وعدے کی بنا پر جو اس نے تم سے کر رکھا ہے، دعا کرو۔ اگر) تم نے یہ بلا ہمارے سر سے ٹال دی تو ہم تمہارے بات ضرور مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ جانے دیں گے۔ پھر جب ہم اس آفت کو کچھ دیر کے لیے، جس تک لازماً ان کو پہنچنا ہوتا، ٹٓلد یتے تو وہ دفعۃً اپنا عہد توڑ دیتے۔
Top