Tadabbur-e-Quran - As-Saff : 7
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ یُدْعٰۤى اِلَى الْاِسْلَامِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم ہے مِمَّنِ افْتَرٰى : اس سے جو گھڑے عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ : اللہ پر جھوٹ کو وَهُوَ يُدْعٰٓى : حالانکہ وہ بلایا جاتا ہو اِلَى الْاِسْلَامِ : اسلام کی طرف وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم قوم کو
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تہمت باندھے درآنحالیکہ اس کو اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہو ! اور اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرتا۔
(ومن اظلم ممن افتری علی اللہ الکذب وھو یدعی الی الاسلام واللہ لا یھدی القوم الظمین) (7)۔ یہ یہود کی بد قسمتی پر اظہار افسوس ہے کہ اپنی جس کجی نے اب ان کو اسلام کی مخالفت پر ابھارا ہے۔ فرمایا کہ ان سے بڑھ کر اپنی جان پر ظلم ڈھانے والا کون ہوسکتا ہے جن کو اسلام کی دعوت دی جا رہی ہو اور وہ اسلام کی مخالفت کے بہانے پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر طرح طرح کے جھوٹ گھڑ رہے ہوں۔ (یہود کے من گھڑت دعوے)۔ (افتری علی اللہ الکذب)۔ سے ان باتوں کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے اپنی بزرگی و برتری ثابت کرنے کے لیے اپنی شان میں گھڑ رکھی تھیں۔ مثلاً یہ کہ ہم ایک برگزیدہ اور خدا کی منطق نظر امت ہیں، ہم کسی ایسے نبی کی ہدایت کے محتاج کس طرح ہو سکتے ہیں جو امیوں کے اندر پیدا ہوا ہو ؟ نبوت و رسالت کے لیے تو ہمیشہ سے اسرائیل کا گھرانا مخصوص رہا ہے، اس سے باہر کوئی نبی کس طرح پیدا ہوسکتا ہے ؟ اس ضمن میں یہ بات بھی انہوں نے گھڑ رکھی تھی کہ ہمیں تو یہ ہدایت ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کے دعوائے نبوت کی تصدیق ہی نہ کریں جس کی پیش کی ہوئی قربانی کو کھانے کے لیے ان سے آگ نہ اترے۔ قرآن نے سورة بقرہ میں ان تمام من گھڑت باتوں کی تردید فرمائی کہ یہ سب افتراء ہے۔ اللہ نے کہیں بھی اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ انہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں فرمایا کہ کتنے محروم القسمت ہیں وہ جو لوگ جن کو اسلام کی دعوت دی جا رہی ہے اور وہ خود اپنی آنکھوں میں اپنی ہی گھڑی ہوئی خرافات کی دھول جھونک رہے ہیں۔ (واللہ لا یھدی القوم الظلمین) یہ اس سنت الٰہی کی طرف پھر اشارہ فرمادیا جو آیت 5 میں بیان ہوئی ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ یاب نہیں کرتا جو خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو ان پر یہ احسان فرمایا کہ آنے والے نبی کے باب میں ان کو پہلے سے رہنمائی دی کہ یہ اسے خود بھی پہچانیں اور دوسروں کو بھی پہنچوائیں لیکن جب انہوں نے اس احسان کی یہ قدر کی کہ اللہ کے بتائے ہوئے نشانات خود مٹا رہے ہیں تو ایسے شامت زردن کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔
Top