Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - As-Saff : 6
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ١ؕ فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ
: عیسیٰ ابن مریم نے
يٰبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: اے بنی اسرائیل
اِنِّىْ رَسُوْلُ
: بیشک میں رسول ہوں
اللّٰهِ
: اللہ کا
اِلَيْكُمْ
: تمہاری طرف
مُّصَدِّقًا لِّمَا
: تصدیق کرنے والا ہوں واسطے اس کے جو
بَيْنَ يَدَيَّ
: میرے آگے ہے
مِنَ التَّوْرٰىةِ
: تورات میں سے
وَمُبَشِّرًۢا
: اور خوش خبری دینے والا ہوں
بِرَسُوْلٍ
: ایک رسول کی
يَّاْتِيْ
: آئے گا
مِنْۢ بَعْدِي
: میرے بعد
اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ
: اس کا نام احمد ہوگا
فَلَمَّا جَآءَهُمْ
: پھر جب وہ آیا ان کے پاس
بِالْبَيِّنٰتِ
: ساتھ روشن دلائل کے
قَالُوْا هٰذَا
: انہوں نے کہا یہ
سِحْرٌ مُّبِيْنٌ
: جادو ہے کھلا
اور یاد کرو جب کہ کہا عیسیٰ بن مریم نے اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ مصداق ہوں تورات کی ان پشین گوئیوں کا جو مجھ سے پہلے سے موجود ہیں اور خوش خبری دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہوگا، تو جب وہ آیا ان کے پاس کھلی نشانیوں کے ساتھ تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔
(واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التورۃ و مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد فلما جاء ھم بالبینت قالوا ھذا سحر مبین) (6)۔ (دل کی کجی کے اثرات جو بعد میں ظاہر ہوئے)۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ان کے دل کی ہی کجی کا اثر ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے سے بھی محروم رہے اور جس آخری رسول کی بشارت آنجناب ﷺ نے دی اس کی تکذیب کے لیے بھی آج رات دن خاکبازی میں مصروف ہیں حالانکہ ان کی تمام مخالفتوں کے علی الرغم اللہ کا یہ نور کامل ہو کر رہے گا، نہ یہ اس کا کچھ بگاڑ سکیں گے نہ مشرکین قریش)۔ حضرت عیسیٰ ؑ بنی اسرائیل کے آخری نبی ہیں۔ ان کے ذکر سے مقصود یہ دکھاتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ بنی اسرائیل نے جو سلوک کیا اور اس کی پاداش میں ان پر جو لعنت ہوئی، اس کا اثر بدان پر آخر تک مسلط رہا یہاں تک کہ اس کے نتیجہ میں انہوں نے حضرت مسیح ؑ کی بھی تکذیب کی اور اب اسلام کی جو مخالفت کر رہے ہیں یہ بھی اسی کا اثر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بیماری ایسی جان لیوا ہے کہ ایک مرتبہ لگ گئی تو پھر اس سے جان چھڑانا ناممکن ہے۔ سلامتی اسی میں ہے کہ اس کی چھوت نہ لگنے دی جائے۔ (مصدقالما بین یدی من التوریۃ) یہ بات حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی رسالت کی دلیل کے طور پر فرمائی کہ میرے ظہور سے ان پشین گوئیوں کی تصدیق ہوئی ہے جو میرے باپ میں تورات کے صحیفوں میں موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں سب سے زیادہ واضح بشارت تو ان کے پیش رو حضرت یحییٰ ؑ نے دی۔ انہوں نے اپنا خاص مشن ہی یہ بتایا کہ وہ اپنے بعد آنے والے کی خوش خبری دینے آئے ہیں۔ اپنی اسی بشارت کے ضمن میں انہوں نے ان پشین گوئیوں کا بھی حوال دیا جو حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں پہلے سے موجود تھیں اور جن کی بناء پر لوگوں کو ایک نبی کی بعثت کا انتظار تھا۔ یہ ساری چیزیں اپنے محل میں بیان ہوچکی ہیں۔ یہاں اعادے کی گنجائش نہیں ہے۔ (مصدقا لما کا صحیح مفہوم)۔ (مصدقالما بین یدی) کے لغوی مفہوم پر اس کے محل میں مفصل بحث ہوچکی ہے۔ جو لوگ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں، انہوں نے نہ تو اس کلام کا موقع و محل سمجھا ہے نہ مصدقاکا صحیح لغوی مفہوم وہ متعین کرسکے ہیں۔ حضرت مسیح ؑ نے یہ بات اپنے کو مومن بالتوراۃ ظاہر کرنے کے لیے نہیں فرمائی ہے۔ بلکہ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، اپنی نبوت و رسالت کی دلیل کے طور پر فرمائی ہے، اور قرآن میں جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے اسی سیاق میں آیا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ بات بالکل لا حاصل ہے کہ میں تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ اگر انہوں نے تورات کی تصدیق فرمائی تو اس سے جو بات ثابت ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ وہ تورات پر ایمان رکھتے تھے لیکن اس سے ان کی نبوت و رسالت کس طرح ثابت ہوجائے گی ؟ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ تورات کے ہر حصہ کی تصدیق نہ حضرت مسیح ؑ نے فرمائی ہے نہ محمد رسول اللہ ﷺ نے بلکہ حضرت مسیح ؑ نے بھی اس کی تحریفات سے پردہ اٹھایا ہے اور قرآن نے بھی بلکہ قرآن کے تو اس کے اچھی طرح بخیے ادھیڑے ہیں۔ (آنحضرت ﷺ کے باب میں حضرت مسیح ؑ کی پیشین گوئیوں کی اہمیت)۔ (ومبشرا برسول یاتی من بعدی) اسمہ احمد۔ یعنی ساتھ ہی حضرت مسیح ؑ نے اپنا مشن بھی بتایا کہ میں ایک رسول کی خوش خبری دینے آیا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ جہاں تک اس رسول کی پیشین گوئی کا تعلق ہے وہ تو سیدنا ابراہیم ؑ کے زمانے سے چلی آرہی ہے جس کا ذکر اگلی سورة میں بھی آ رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بعد حضرت موسیٰ ؑ نے بھی اس رسول کی خوش خبری دی۔ بعض دوسرے انبیاء سے بھی تورات کے مختلف صحیفوں میں پیشین گوئیاں موجود ہیں اور اہل کتاب ان کا مصداق آنحضرت ﷺ کو مانیں یا نہ مانیں لیکن ایک غیر جانبدار ذہن یہ ماننے پر مجبور ہے کہ آنحضرت ﷺ کے سوا کسی اور پر وہ منطبق نہیں ہو سکتیں۔ الغرض جہاں تک آنحضرت ﷺ کی بشارت کا تعلق ہے اس میں حضرت مسیح ؑ منفرد نہیں ہیں لیکن آنجناب ﷺ کی بشارت تین پہلوئوں سے دوسری سابق بشارتوں سے بالکل مختلف ہے۔ ایک یہ کہ آپ نے اس بشارت کو اپنا ایک ضمنی کام نہیں بلکہ اپنی بعثت کا خاص مقصد اور مشن بتایا ہے۔ دوسرا یہ کہ آپ نے اس کے ظہور کا زمانہ بھی بالکل قطعی طور پر متعین کردیا ہے۔ تیرا یہ کہ آپ نے یہ بشارت آنحضرت ﷺ کے اسم گرامی کی تصریح کے ساتھ دی ہے۔ یہ تینوں پہلو خاصے اہم ہیں اس وجہ سے ہم بالاختصار ان پر یہاں گفتگو کریں گے۔ (انجیل کے انجیل سے موسوم ہونے کی حکمت)۔ پہلی بات یعنی حضرت مسیح ؑ کا آنحضرت ﷺ کی بشارت پر مامور ہونا ان کے الفاظ (مبشرا ﷺ برسول یاتی من بعدی) سے بھی واضح ہے لیکن اس سے بڑی دلیل خود اس صحیفہ کا نام ہے جو ان پر نازل ہوا۔ لفظ انجیل بلا اختلاف یونانی ہے جس کے معنی مسلم طور پر بشارت کے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تمام آسمانی صحیفوں میں یہی صحیفہ خاص طور پر اس لفظ سے کیوں موسوم ہوا ؟ عیسائی ممکن ہے نجات سے متعلق اپنے من گھڑت عقیدے کی بناء پر اس کی توجیہ یہ کریں کہ یہ بنی آدم کے لیے نجات کی بشارت ہے، لیکن یہ توجیہ بالکل طفلانہ ہے۔ نجات سے متعلق جو عقیدہ پال نے گھڑا ہے اس کی کوئی الٹی سیدھی دلیل پال کے لا یعنی علم کلام ہو تو ہو لیکن ان انجیلوں میں اس کی کوئی کمزور سے کمزور دلیل بھی نہیں ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کا مشن جس طرح بشارت رہا ہے اسی طرح بلکہ کسی کسرے زائد انداز بھی رہا ہے اور یہ دونوں فرض جس طرح ہر نبی نے انجام دیے اسی طرح حضرت مسیح ؑ نے بھی انجام دیے۔ انہوں نے ایمان لانے والوں کو نوز و فلاح کی بشارت بھی دی اور کفر کرنے والوں کو دوزخ سے ڈرایا بھی، پھر کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان کے صحیفہ کا نام مخصوص طور پر بشارت (انجیل) ہی ہوتا۔ البتہ اس نام سے موسوم ہونے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ کا امتیازی وصف اور خاص مشن تھا ہی یہ کہ وہ اپنے بعد آنے والے آخری رسول کی بشارت دیں۔ اس مشن پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کر کے بھیجے گئے تھے۔ اس سوجہ سے ان کے صحیفہ کا نام ہی بشارت (انجیل) ہوا کہ نام ہی سے آپ کے مشن کا اظہار ہوا اور یہ نام قیامت کے دن عیسائیوں پر حجت بنے کہ جس کی بشارت دینے پر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے۔ اس پر ایمان لانے سے خود محروم رہے اور سیدنا مسیح ؑ کی کنواریوں والی تمثیل ان پر صادق آئی کہ رات بھر تو وہ شمعیں جلائے دولہا کا انتظار کرتی رہیں لیکن جب دولہا کے آنے کا وقت ہوا تو ان کی کپیوں کا تیل ختم ہوگیا اور وہ سو رہیں۔ انجیلوں کا تدبر سے مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ان کا خاص مضمون آسمانی بادشاہت کی بشارت ہے۔ مختلف اسلوبوں، پیرایوں اور گوناگوں تمثیلوں سے یہی مضمون ان میں بار بار آتا ہے۔ اس آسمانی بادشاہی کی جو خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ اس کے تدریجی نشوونما کا جو تصور دیا گیا ہے اس میں داخل ہونے والوں اور اس سے محروم رہنے والوں کے جو اوصاف مذکور ہوئے ہیں اگر ان پر اچھی طرح غور کیجئے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ یہ در حقیت اس نبوت کی بشارت ہے جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کی شکل میں ظاہر ہوئی اور اس نظام صالح کی خوش خبری ہے جس کی برکتیں صحابہ ؓ کے ہاتھوں زمین پر پھیلیں۔ یہاں اس مسئلہ کی وضاحت کا موقع نہیں ہے ورنہ میں مثالیں دے کر اپنا نقطہ نظر اچھی طرح واضح کردیتا۔ تاہم مجھے امید ہے کہ جو لوگ انجیلوں پر اس پہلو سے غور کریں گے وہ میری رائے سے اتفاق کریں گے کہ ان کا اصل مضمون اس آسمانی بادشاہی کی بشارت ہی ہے جو آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے قائم ہوئی۔ (یہ پیشین گوئی تعین زمانہ کے ساتھ ہے)۔ اس پیشین گوئی میں زمانے کے تعین کی بات بھی اس کی اہمیت کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ اس سے پہلے جتنی پیشین گوئیاں بھی آنحضرت ﷺ یا دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کے باب میں وارد ہوئیں ان میں سے کسی میں بھی اس تصریح کے ساتھ زمانے کا تعین نہیں ہے بلکہ سب ایک غیر معین مستقل سے تعلق رکھنے والی ہیں، لیکن اس پیشین گوئی میں یہ تصریح ہے کہ وہ رسول آپ کے بعد آئے گا اور آپ اس کی بشارت دینے اور اس آنے والے کی راہ صاف کرنے آئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ سیدنا مسیح ؑ کے بعد وہ کون شخصیت اس پوری دنیا میں ظاہرہوئی ہے جس پر وہ صفات یا وہ تمثیلات منطبق ہو سکیں جو آنجناب ﷺ نے اس کے باب میں یا اس کے ہاتھوں قائم ہون والے نظام سے متعلق فرمائی ہیں ؟ ضد اور ہٹ دھرمی کی بات اور ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کے جواب میں محمد ﷺ کے سوا کسی اور کا نام نہیں لیا جاسکتا۔ اگر عیسائی یہ نام نہیں لینا چاہتے تو پھر انہیں انجیلوں سے بھی دست بردار ہوجانا چاہیے۔ آخر وہ کب تک ایک ایسی بشارت دیتے رہیں گے جس کا کوئی مصداق دو ہزار سال میں ظاہر نہیں ہوا۔ (نام کی تصریح کے ساتھ بشارت)۔ مسئلہ کا تیسرا پہلو بھی نہایت اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے آنحضرت ﷺ کی بشارت نام کی تصریح کے ساتھ دی ہے۔ نام کی صراحت کے ساتھ اس پیشین گوئی کا ظہور میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس میں کسی قسم کا خفانہ رہے بلکہ ہر چیز اس طرح کھل کر سامنے آجائے کہ جو لوگ اس کا انکار کریں ان کی ہٹ دھرمی بالکل بےنقاب اور ان پر اللہ کی حجت اچھی طرح قائم ہوجائے۔ (ناموں کی تحریف میں اہل کتاب کی جسارت)۔ لیکن ناموں کے اوپر تحریف کرنے والوں نے جو قیامت ڈھائی ہے وہ سب سے زیادہ دردناک ہے۔ انہوں نے یا تو ان ناموں کا حلیہ اس طرح بگاڑا کہ ان کی اصل صورت معلوم کرنے کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہ جائے یا ان کا ترجمہ اور پھر ترجمہ در ترجمہ کر کے ان کو حقیقت سے اتنا دور کردیا کہ ان کی تحقیق کی کاوش جوئے شیر لانے کے مترادف بن گئی۔ اس کی مثال کے لیے ہم ”مردہ“ اور ”بکہ“ کو پیش کرتے ہیں۔ یہ دونوں نام تورات میں آئے ہیں۔ مردہ وہ قربان گاہ ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی پیش کی اور (بکہ) مکہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیل ؑ کو بسایا اور جن کی ذریت سے ایک رسول کی بعثت کی دعا فرمائی، چونکہ یہود یہ بات کسی قسمت پر گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا کوئی تعلق مکہ سے ثابت ہو سکے یا یہ کہ قربان ہونے والا فرزند حضرت اسماعیل ؑ کو قرار دیا جاسکے اس وجہ سے انہوں نے نہایت سفاکی کے ساتھ ہر اس نشان کو تورات سے کھرچ کھرچ کر مٹایا جس کو انہوں نے اپنی خواہش کے خلاف پایا، چناچہ مردہ کو ان کے علماء اور قاریوں نے زبان کے تروڑ مروڑ سے مورہ موریا مریا اور نہ جانے کیا کیا بنایا۔ اسی طرح بکہ کو بکاء بنایا اور پھر اس کو وادی بکار کا نام دے کر مترجموں نے اس کا ترجمہ دادی گریہ کردیا حالانکہ بکہ اور مکہ دونوں ایک ہی چیز ہے۔ اس کی تحقیق اس کتاب میں اس کے محل میں گزر چکی ہے۔ 1 ؎(ملاحظہ ہو تدبر قرآن، جلد اول، صفحات 747، 748) ان دو مثالوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تورات اور انجیل میں ان ناموں پر کیا گزری ہے جن کو یہودیوں یا عیسائیوں نے اپنے مقصد کے خلاف پایا ہے۔ خاص طور پر احمد یا حمد تو ایسے نام ہیں کہ ان کا کوئی حرف بھی وہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ چناچہ انجیلوں سے یہ بات تو صاف معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے نام کی تصریح کے ساتھ حضور ﷺ کی بعثت کی بشارت دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ عیسائی علماء نے اس نام پر پردہ ڈالتے ہیں وہ کمال فن دکھایا ہے کہ یہود کے سوا کوئی اور اس کمال میں ان کا حریف نہیں ہوسکتا۔ پہلے ہم انجیل یوحنا سے وہ حوالے نقل کرتے ہیں جن میں حضور ﷺ کی بشارت دی گئی ہے، اس کے بعد ان کے خاص خاص پہلوئوں کی طرف توجہ دلائیں گے، سیدنا مسیح ؑ فرماتے ہیں :”اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابر تک تمہارے ساتھ رہے، یعنی سچائی کا روح“۔ (یوحنا۔ باب 14، 16، 17) ”لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرا نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاددلائے گا“۔ (یوحنا، باب 14، 26) ”اس کے بعد میں تم سے محبت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار ٓتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں“۔ (یوحنا، باب 14، 30) ”لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا“۔ (یوحنا، باب 15، 26) ”لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں گا تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا“۔ (یوحنا، باب : 6، 7) ”مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اسی لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا“۔ (یوحنا : باب 16، 12، 13) یہ حوالے ہم نے انجیل یوحنا سے لیے ہیں جو عیسائیوں کے تمام فرقوں کے نزدیک مسلم ہے۔ انجیل برناباس میں حضور ﷺ کی بشارت آپ کے نام نامی محمد، کی تصریح کے ساتھ بار بار وارد ہوئی ہے لیکن اس کے حوالے ہم اس لیے نہیں دے رہے ہیں کہ موجودہ عیسائی جو پامال کے پیرو ہیں، اس کو مستند نہیں مانتے، مذکورہ بالاحوالوں پر غور کیجئے تو چند باتیں بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مسیح ؑ نے آنحضرت ﷺ کی بشارت ایسی واضح صفات کے ساتھ دی ہے کہ وہ حضور ﷺ کے سوا کسی دوسرے پر منطبق نہیں ہو سکتیں، مثلاً ”وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے“۔ ”وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا“۔ ”دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں“۔ غور کیجئے کہ حضرت مسیح ؑ کے بعد آنحضرت ﷺ کے سوا اور کون ہے جس کو ان صفات کا مصداق قرار دیا جاسکے ؟ دوسری یہ کہ ان پیشین گوئیوں کے پیش و عقب میں اگرچہ ایسے بےجوڑ فقرے اور الفاظ گھسانے کی کوشش کی گئی ہے جن میں ان کے مطلب کو خبط کیا جاسکے لیکن اس کوشش میں تحریف کرنے والوں کو کامیابی نہیں ہوئی ہے بلکہ ان فقروں کا بےربط ہونا بالکل نمایاں ہے۔ تیسری یہ کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے آنحضرت ﷺ کی تعریف میں کوئی معین لفظ فرمایا جس کو بعد کے مترجموں اور شارحوں نے اپنی تحریف کا خاص طور پر ہدف بنایا اور اپنا پورا زور لگایا ہے کہ اس کو جس حد تک اس کے صحیح مفہوم سے دور کرسکیں کردیں۔ کسی نے اسکا ترجمہ مددگار کیا ہے کسی نے وکیل کسی نے شفیع کسی نے سچائی کی روح۔ رہا یہ کہ وہ لفظ کیا ہے تو یوحنا میں جو یونانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ (Paragletus) بتایا جاتا ہے جس کے معنی بیان کرنے میں وہ موشگافیاں کی گئی ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ یہ یونانی ظاہر ہے کہ کسی سریانی لفظ کا ترجمہ ہوگا اس لیے کہ انجیل کی اصل زبان سریانی تھی تو اب اس کی تحقیق کون کرے کہ وہ کیا تھا۔ جب ایک لفظ کو گم کرنے کی جدوجہد میں صدیوں سے ایک پوری قوم لگی ہو تو اس سراغ لگانا کس کے امکان میں ہے ! یہ تو قرآن کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس کا کچھ سراغ دیا۔ بعض مسلمان مورخین کی تحقیق یہ ہے کہ اصل سریانی لفظ (منعمنا) ہے جس کے معنی سریانی میں وہی ہیں جو محمد اور احمد کے ہیں۔ (یہود کی شقاوت)۔ (فلما اء ھم بالبینت قالوا ھذا سحرمبین) (جاء) کے فاعل حضرت عیسیٰ ؑ ہیں۔ یعنی وہ سابق پیشین گوئیوں کے مصداق اور اپنے بعد آنے والے رسول خاتم کے مبشر بن کر نہایت کھلے ہوئے معجزات کے ساتھ جب آئے تو یہود کے دل اس طرح کج ہوچکے تھے کہ انہوں نے آپ کے تمام معجزات کو جادو قرار دیا اور آپ کی تکذیب کردی۔ انجیل میں تصریح ہے کہ یہود نے آپ کے معجزات کو جادو کا کرشمہ بھی قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ جو کچھ دکھاتے ہیں اس میں روح القدس کی تائید کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ ان کو ایک بھوت، بغلزلوں کی مدد حاصل ہے۔ بعض لوگوں نے جاء کا فاعل آنحضرت ﷺ کو قرار دیا ہے لیکن یہ سیاق وسباق کے بالکل خلاف ہے۔ (ایک و تعق پہلو)۔ یہاں اس فرق کو بھی ملحوظ رکھیے جو حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت مسیح ؑ کے انداز خطاب میں نمایاں ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے تو بنی اسرائیل کو یقوم سے مخاطب کیا لیکن حضرت مسیح ؑ نے ان کو (یبنی اسرائیل) سے مخاطب کیا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ قومی تعلق نہ آپ کا بنی اسرائیل سے تھا نہ کسی اور قوم سے بلکہ آپ عیسیٰ بن مریم تھے۔ قرآن نے خطاب کے ان باریک پہلوئوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔
Top