Tadabbur-e-Quran - As-Saff : 4
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ يُحِبُّ الَّذِيْنَ : محبت رکھتا ہے ان لوگوں سے يُقَاتِلُوْنَ فِيْ : جو جنگ کرتے ہیں۔ میں سَبِيْلِهٖ : اس کے راستے (میں) صَفًّا : صف بستہ ہو کر۔ صف بنا کر كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ : گویا کہ وہ دیوار ہیں۔ عمارت ہیں مَّرْصُوْصٌ : سیسہ پلائی ہوئی
اللہ تو محبوب ان لوگوں کو رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔
(منافقین کی اصل کمزوری)۔ (ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کا نھم بنیان موصوص) (4)۔ یہ ان منافقین کی اس کمزوری سے پردہ اٹھایا ہے جس پر یہ نکیر فرمائی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی خاص کمزوری یہ تھی کہ اپنی وفاداری و جان نثاری کی دھونس جمانے کے لیے وہ جہاد کے ولولہ کا اظہار تو بہت کرتے لیکن جب جہاد کا حکم دے دیا گیا تو چھپتے پھرتے تھے۔ سورة نساء میں ان کی کمزوری کی طرف ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَج فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہ ِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً) (النساء : 4، 77)۔ (تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا جاتا تھا کہ ابھی اپنے ہاتھ روکو اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ دو (تو وہ جنگ کے لیے جلدی مچاتے تھے) لیکن جب جنگ ان کے اوپر فرض کردی گئی تو انمیں سے ایک گروہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہا ہے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہیے، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔) سورة توبہ میں انہی لوگوں کو ان الفاظ میں ملامت فرمائی ہے۔ (یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہ ِ اثَّا قَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ) (التوبۃ۔ 9 : 38)۔ (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اٹھو تو تم زمین پر ڈھٹے پڑتے ہو۔) ان لوگوں کی بزدلی کا حال یہ تھا کہ اگر مارے باندھے جنگ کے لیے نکلتے بھی تو صف بستہ اور سینہ سپر ہو کر لڑنے کا حوصلہ نہ کرتے بلکہ ان کی کوشش برابر یہ ہوتی کہ کسی طرح جنگ کے خطرہ سے اپنے کو محفوظ رکھیں۔ سورة توبہ میں ان کی اس بزدلی کی تصویر اس طرح کھینچی گئی ہے۔) (لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَـلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْہِ وَھُمْ یَجْمَحُوْنَ۔) التوبۃ 9 : 57) (اگر وہ پا جائیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا کوئی گھس پیٹھنے کی جگہ تو وہ رسی تڑا کر اس کی طرف بھائیں گے۔) ان لوگوں کی انہی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر فرمایا کہ تم نے محض زبانی جمع خرچ سے اللہ کو خوش کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے یہ اس کو خوش کرنے کے بجائے اس کے قہروغضب میں مزید اضافے کا موجب ہوگا۔ اللہ ان لوگوں کو کبھی پسند کرنے والا نہیں ہے جو ڈینگیں تو بہت ماریں لیکن قربانی کا کوئی حوصلہ اپنے اندر نہ رکھتے ہوں۔ وہ محبوب انہی لوگوں کو رکھتا ہے جو میدان جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ (بنیان) عمارت کو کہتے ہیں لیکن یہاں اس سے مراددیوار ہے۔ دیوار کی ایک اینٹ بھی اگر اپنی جگہ سے کھسک جائے تو پھر پوری دیوار کو اکھاڑ پھینکنا آسان ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے سورة انفال میں تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص منظم فوج کشی کی صورت میں صف سے اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگتا ہے تو وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے (فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہ ِ وَمَاْوٰہُ جَھَنَّمُط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔) (الانفال۔ 8 : 16) (تو وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ نہایت ہی برا ٹھکانا ہے۔)
Top