Tadabbur-e-Quran - As-Saff : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو لِمَ تَقُوْلُوْنَ : کیوں تم کہتے ہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
اے ایمان والو ! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں !
(یایھا الذین امنوا لم تقولون مالا تفعلون کبرمقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون) (2، 3)۔ (زبان کے غازیوں کو تنبیہ)۔ خطاب اگرچہ باعتبار الفاظ عام ہے لیکن روئے سخن انہی کی طرف سے جو ایمان و اسلام اور انفاق و جہاد کے دعوے تو بڑی بلند آہنگی سے کرتے لیکن جب آزمائش کا وقت آتا تو بالکل بزدل ثابت ہوتے۔ ان کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم اس بات کا دعویٰ ہی کیوں کرتے ہو جو پورا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ! اگر تمہارا گمان یہ ہے کہ اس زبانی جہاد سے تم کوئی سعادت کی کمائی کر رہے ہو تو یہ خیال بالکل غلط ہے۔ تمہارا یہ رویہ اللہ کے نزدیک تمہارے لیے موجب سعادت نہیں بلکہ مزید غضب کا باعث ہے کہ تم زبان سے تو بڑے غازی ہو لیکن عمل کے اعتبار سے بالکل صفر۔ آدمی کے قول وقرار کی ساری قدر و قیمت اس کی وفاداری و راستبازی میں ہے۔ ایک شخص ایک طالب مدد کو پہلے ہی مرحلے میں اگر صاف جواب دے دیتا ہے کہ وہ اس کی مدد نہیں کرے گا تو گو اس کا انکار اگر وہ مدد کی اہلیت رکھتا ہے۔ فتوت، ہمدردی اور اسلامی اخوت کے منافی اور اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اللہ کے نزدیک مبغوض وہ ہوگا جس نے ایک ضرورت مند کو مدد کا اطمینان تو بڑی فراخ دلی سے دلایا لیکن جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آیا تو اس کو دھوکا دیا۔ یہ رویہ یوں تو ہر شکل میں مکروہ و مبغوض ہے لیکن معاملہ ایک نبی اور اس پر ایمان کے مدعیوں کا ہو تو اس کی سنگینی اور بڑھ جائے گی۔ جو لوگ ایک نبی کی دعوت قبول نہیں کرتے وہ اللہ کے غضب کے سزا وار ہوتے ہیں اور ان کی سزا وار ہونے چاہیے لیکن ان سے بھی زیادہ اللہ کے غضب کے سزا وار وہ ہیں جو ماننے کو تو اس کی ہر بات مان لیں لیکن عمل کسی بات پر بھی نہ کریں یا صرف ان باتوں پر کریں جو ان کے نفس کی خواہشوں کے موافق ہوں اور جب کوئی اہم مرحلہ پیش آئے تو اس وقت چھپتے پھریں۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا رویہ کھلے ہوئے دشمنوں کے مقابل میں دین کے لیے زیادہ خطرناک ہے اس لیے کہ انہوں نے اپنے کو دوست ظاہر کر کے دین کی دشمنی کی اور اس کی فوج میں بھرتی ہو کر اس کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے۔ ان کے زیادہ معتوب الٰہی ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ جب ایک مرتبہ انہوں نے دین کو مان لیا تو گویا انہوں نے اس امر کا اعتراف کرلیا کہ یہ چیز ان کے دل کو اپیل کرنے والی اور ان کی سمجھ میں آنے والی ہے۔ اس پہلو سے ان کا معاملہ ان لوگوں سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے جو اس کے مخالف اس بناء پر ہوں کہ ابھی بات ان کی سمجھ میں سرے سے آئی ہی نہ ہو۔ کسی بات کا سمجھ میں نہ آنا بہر حال ایک عذر ہے جس کی بناء پر ایک شخص رعایت کا مستحق قرار پاتا ہے لیکن جو لوگ سمجھ چکنے کا اعتراف کرچکے ہوں اگر وہ اس کے عملی تقاضوں سے گریز اختیار کریں تو اس کا سبب صرف ان کی اخلاقی کمزوری ہی ہو سکتی ہے جو کسی کے لیے بھی کوئی عذر نہیں بن سکتی بلکہ یہ بہر شکل ایک برائی ہے جو اللہ کے غضب اور اس کی نفرت ہی کی موجب ہوگی۔
Top