بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
اللہ ہی کی تسبیح کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور وہی غالب و حکیم ہے۔
1۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (سبح للہ ما فی السموات وما فی الارض وھو العزیز الحکیم) (1)۔ (آیت تسبیح کا آگے کے مضمون سے ربط)۔ یہ آیت تشویق وتحریض کے محل میں بھی ہو سکتی ہے اور اظہار بےنیازی کے محل میں بھی۔ آگے جہاد سے جان چرانے والے منافقین کو ان کی بدعہدی وبزدلی پر ملامت کی گئی ہے۔ اس مضمون سے یہ آیت اپنے مذکورہ دونوں پہلوئوں سے ربط رکھنی ہے۔ اگر تشریق و ترغیب کے پہلو سے نگاہ ڈالیے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس خدا کی تسبیح و بندگی میں اس کائنات کی ہر چیز سرگرم ہے، جو ہر چیز پر غالب اور جس کے ہر کام میں حکمت ہے اس کی راہ میں جہاد سے اگر کوئی جان چرائے تو اس پر حیف ہے ! بےنیازی کے پہلو سے نگاہ ڈالیے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب اس کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و بندگی میں لگی ہوئی ہے اور حقیقی غالب و حکیم وہی ہے تو اس کو اس بات کی کیا پرواہو سکتی ہے کہ کچھ بزدل اس کی راہ میں جہاد سے جان چراتے پھرتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس سورة میں سبح آیا ہے اور اگلی سورة میں یسبح ہے ان دونوں اسلوبوں میں یہ فرق ہے کہ ماضی بیان واقعہ اور بیان حقیقت کے لیے آتا ہے اور مضارع تصویر حال اور استمرار کا فائدہ بھی دیتا ہے۔ (العزیز الحکیم) کی دو صفتوں کا بغیر حرف عطف کے بیان اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں صفتیں موصوف میں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ بیک وقت ہر چیز پر غالب و قادر بھی ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت و مصلحت بھی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جو ذات ان صفات سے موصوف ہے اس سے بڑھ کر بھروسہ کے قابل اور کس کی ذات ہو سکتی ہے ! بدقسمت ہیں وہ جو ایسی ذات پر بھی بھروسہ نہ کریں۔
Top