Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 67
لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّ١٘ وَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ
لِكُلِّ : ہر ایک کے لیے نَبَاٍ : خبر مُّسْتَقَرٌّ : ایک ٹھکانہ وَّسَوْفَ : اور جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے
ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور تم عنقریب جان لوگے۔
لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْـتَقَرٌّ، نبا، کسی اہم حادثہ کی خبر کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد اس عذاب کی خبر ہے جو قرآن دے رہا تھا۔ مستقر، موضع استقرار اور وقت استقرار دونوں مفہوم میں ہوسکتا ہے۔ نیز مصدر کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے وقت استقرار کے مفہوم میں لیا ہے۔ اگلی آیات 68 تا 73 کا مضمون : آگے پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں کی طرف التفات ہے کہ جو ضدی اور ہٹ دھرم لوگ بات سننا چاہتے ہی نہیں ان کے یادہ درپے ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جب دیکھو کہ یہ لوگ کج بحثیوں اور استہزاء پر اتر آئے ہیں تو ان کو چھوڑ کر الگ ہوجاؤ، صرف اسی وقت ان کے سامنے کوئی بات پیش کرو جب وہ کچھ سننے سمجھنے کے موڈ میں نظر آئیں۔ تمہاری ذمہ داری تبلیغ و تذکیر تک محدود ہے۔ تم ان کے ایمان کے ذمہ دار تو ہو نہیں کہ ان کے دلوں میں ایمان اتار ہی دو ، ان کی نت نئی فرمائشوں کی بھی پروا نہ کرو۔ بس اسی قرآن کے ذریعہ سے حق نصیحت ادا کردو کہ جس کو سنبھلنا ہو سنبھل جائے، اپنے عمل کی پاداش میں مارا نہ جائے۔ خدا کے ہاں نہ کسی کی حمایت و سفارش کام آئی ہے اور نہ کوئی معاوضہ پیش کرنے کی گنجائش ہوگی۔ اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ کی زبان سے اعلان کرا دیا گیا ہے کہ ہم اللہ کی ہدایت پا جانے کے بعد شرک کی حیرانی و سرگشتگی میں پڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو اللہ رب العالمین کے حوالے کرنے، اسی کی نماز پڑھنے اور اسی سے ڈرتے رہنے کی ہدایت ہوئی ہے، ہم نے اپنے آپ کو اسی کے حوالے کردیا ہے، جس کا جی چاہے یہ راہ اختیار کرے، ورنہ جہاں چاہے بھٹکتا پھرے، مطلب یہ ہے کہ اب اس معاملے میں کسی بحث وجدال کی گنجائش نہیں ہے، ہم اپنے مذہب و مسلک کا واضح طور پر اعلان کیے دیتے ہیں۔ آخر میں اس کارخانہ کائنات کے بالحق ہونے کی طرف اشارہ فرمایا جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قیامت لازماً آئی ہے اس دن خدا ہی کے اختیار میں فیصلہ ہوگا۔ وہ حکیم وخبیر ہے۔ اس دن حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا سب پر واضح ہوجائے گا، اس وجہ سے یہ نہیں سنتے تو ان کا معاملہ اسی دن پر چھوڑو، اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top