Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 40
قُلْ اَرَءَیْتَكُمْ اِنْ اَتٰىكُمْ عَذَابُ اللّٰهِ اَوْ اَتَتْكُمُ السَّاعَةُ اَغَیْرَ اللّٰهِ تَدْعُوْنَ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتَكُمْ : بھلا دیکھو اِنْ : اگر اَتٰىكُمْ : تم پر آئے عَذَابُ : عذا اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَتَتْكُمُ : آئے تم پر السَّاعَةُ : قیامت اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا تَدْعُوْنَ : تم پکارو گے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کہہ دو ، بتاؤ، اگر تم پرا للہ کا عذاب آجائے یا قیامت آدھمکے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ؟
40 تا 41۔ ارءیتم اور ارءیتکم کا محل استعمال اور مفہوم ایک ہی ہے۔ چناچہ آگے آیت 46 میں بالک اسی محل میں ارءیتم آیا ہے۔ توحید کی ایک نفسی دلیل۔ یہ مطالبہ نشانی عذاب کا جواب بھی ہے اور انسانی فطرت کے ایک خاص پہلو سے توحید کی ایک ناقابل تردید انفسی دلیل بھی۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے کہو کہ اس طنطنہ کے ساتھ جو عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو تو اس کے مقابلہ یا اس سے بچاؤ کا کیا سامان کر رکھا ہے ؟ کون سی ناقابل تسخیر داعی لائن تم نے بنا لی کہ اس زعم کے ساتھ خدا کو چیلنج کر رہے ہو ؟ فرض کرو۔ جس عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو خدا وہی بھیج دیتا ہے یا جس قیامت سے تمہیں خبر دار کیا جا رہا ہے وہی آ دھمکتی ہے تو کون ہے جس کو اپنی مدد کے لیے پکاروگے ؟ کیا خدا کے سوا کوئی اور ہے جس کو پکاروگے اور اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ اس کے کچھ دوسرے شریک بھی ہیں ؟ فرمایا کہ تمہارا یہ دعوی بالکل بےبنیاد ہے۔ اگر ایسا وقت آگیا تو تم خدا کے سوا سب کو بھول جاؤ گے اور صرف اسی کو پکارو گے اور وہی ہے جو اس مصیبت کو اگر چاہے گا تو دور کرے گا۔ اوپر والی آیات میں، جیسا کہ ہم نے بیان کیا، توحید کے آفاقی دلائل کی طرف اشارہ تھا۔ یہ یہاں توحید کی اس انفسی دلیل کی طرف اشارہ ہے جو قرآن میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوئی ہے۔ اس دلیل کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ انسان کی اصل فطرت میں چونکہ ایک ہی خدا کی شہادت موجود ہے، دوسرے اصنام و الہ، جن کو وہ مانتا ہے، ان کی کوئی شہادت اس کی فطرت کے باطن میں موجود نہیں ہوتی بلکہ وہ محض خیالی ہوتے ہیں، اس وجہ سے جب اس کی زندگی میں کوئی ایسا مرحلہ آجاتا ہے جو اصل آزمائش کا ہوتا ہے تو انسان اپنے ان تمام فرضی سہاروں کو بھول جاتا ہے، صرف اسی خدا کو پکارتا ہے جس کی شہادت، وہ اپنی فطرت میں پاتا ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کو نہایت دل آوز تمثیلوں اور نہایت حقیقت افروز دلائل سے واضح کیا ہے۔ آگے یہ ساری چیزیں زیر بحث آئیں گی اس وجہ سے یہاں ہم صرف اشارے پر کفایت کرتے ہیں۔
Top