Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 151
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ١ؕ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْ١ۚ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ١ۚ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
قُلْ
: فرمادیں
تَعَالَوْا
: آؤ
اَتْلُ
: میں پڑھ کر سناؤں
مَا حَرَّمَ
: جو حرام کیا
رَبُّكُمْ
: تمہارا رب
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اَلَّا تُشْرِكُوْا
: کہ نہ شریک ٹھہراؤ
بِهٖ
: اس کے ساتھ
شَيْئًا
: کچھ۔ کوئی
وَّبِالْوَالِدَيْنِ
: اور والدین کے ساتھ
اِحْسَانًا
: نیک سلوک
وَلَا تَقْتُلُوْٓا
: اور نہ قتل کرو
اَوْلَادَكُمْ
: اپنی اولاد
مِّنْ
: سے
اِمْلَاقٍ
: مفلس
نَحْنُ
: ہم
نَرْزُقُكُمْ
: تمہیں رزق دیتے ہیں
وَاِيَّاهُمْ
: اور ان کو
وَلَا تَقْرَبُوا
: اور قریب نہ جاؤ تم
الْفَوَاحِشَ
: بےحیائی (جمع)
مَا ظَهَرَ
: جو ظاہر ہو
مِنْهَا
: اس سے (ان میں)
وَمَا
: اور جو
بَطَنَ
: چھپی ہو
وَلَا تَقْتُلُوا
: اور نہ قتل کرو
النَّفْسَ
: جان
الَّتِيْ
: جو۔ جس
حَرَّمَ
: حرمت دی
اللّٰهُ
: اللہ
اِلَّا بالْحَقِّ
: مگر حق پر
ذٰلِكُمْ
: یہ
وَصّٰىكُمْ
: تمہیں حکم دیا ہے
بِهٖ
: اس کا
لَعَلَّكُمْ
: تا کہ تم
تَعْقِلُوْنَ
: عقل سے کام لو (سمجھو)
کہو، آؤ میں سناؤ جو چیزیں تم پر تمہارے رب نے حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہے کہ تم کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم ہی تم کو بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی۔ اور بےحیائی کے کاموں کے پاس نہ پھٹکو، خواہ ظاہر ہو یا پوشیدہ۔ اور جس جان کو اللہ نے حرام ٹھہرایا اس کو قتل نہ کرو مگر حق پر۔ یہ باتیں ہیں جن کی خدا نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے تاکہ تم سمجھو
اصل ملت ابراہیم کی تفصیل :۔ قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْــــًٔـا، یہ اصل ملت ابراہیمی کا فصیلی بیان ہے۔ پیغمبر ﷺ کی زبان سے کہلایا کہ تم نے تو محض اپنے ظن و گمان سے ملت ابراہیم کی بعض طیب و حلال چیزوں کو اپنے مشرکانہ توہمات کی بنا پر حرام ٹھہرا کر یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس کل ملت ابراہیم یہی ہے اور تم نے اس کا حق ادا کردیا، حالانکہ ملت ابراہیم میں دوسری بہت سی باتیں، جو خدا اور بندوں کے حقوق و معاملات سے متعلق حرام ہیں، ان کو تم نے اختیار کر رکھا ہے۔ تو آؤ، میں تمہیں سناتا ہوں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا کیا چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں۔ فرمایا کہ سب سے پہلی چیز جو تم حرام کی گئی وہ شرک ہے لیکن شرک کو تم نے اپنا دین بنا رکھا ہے۔ والدین کے ساتھ احسن سلوک :۔ وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا، خدا کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ اب یہ اس کا ذکر فرمایا۔ یہ ہے تو اسی اوپر والی بات ہی کے تحت لیکن اس کو منفی کے بجائے مثبت پہلو سے ذکر فرمایا۔ زیر بحث آیا میں اسلوب کی یہ ندرت قابل لحاظ ہے کہ بعض باتیں منفی پہلو سے بیان ہوئی ہیں، بعض مثبت پہلو سے، مثلاً شرک، قتلِ اولاد، فحشاء، قتل نفس اور اکل مال یتیم کا ذکر تو منفی پہلو سے ہے اور والدین کے ساتھ احسان، ایفائے کیل و میزان، قول و عمل میں اہتمام عدل اور ایفائے عہد الٰہی کا ذکر مثبت اسلوب سے ہے۔ بعینہ یہی اسلوب، بعینہ انہی امور کے بیان میں بنی اسرائیل کی آیات 22-38 میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفی سے اثبات اور اثبات سے نفی کا استنباط ایک بدیہی چیز ہے۔ جب ایک شے کا اثباتی انداز میں حکم ہے تو اس کے لازمی معنی یہ ہیں کہ جو چیز اس کی ضد ہے اس کی لازماً ممانعت ہے۔ علی ہذا القیاس ایک چیز کی ممانعت ہے تو اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ اس کا مقابل پہلو مطلوب ہے۔ یعنی اگر شرک کی نہی ہے تو توحید مطلوب ہے۔ علی ہذا القیاس اگر والدین کے حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے تو ان کے ساتھ بد سلوکی اور ان کی نافرمانی حرام ہے۔ اس اسلوب کی روشنی میں وہ تمام باتیں جو بیان تو ہوئی ہیں اثبات کے الفاظ میں لیکن ہیں ظاہری تالیف کلام کے اعتبار سے، حَرَّمَ ہی کے تحت ان سب کے ضد پہلو کو بھی مد نظر رکھیے۔ گویا پوری بات یوں ہے کہ ‘ نہ والدین کو اف کہو ’ نہ جھڑکو بلکہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اس اس اسلوب کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں جو پہلو زیادہ زور و قوت سے ظاہر کرنے کا ہے وہ تو الفاظ میں بیان ہوجاتا ہے اور اس کا ضد پہلو بغیر الفاظ کی مدد کے مجر فحوائے کلام اور اقتضائے نظام سے سمجھ میں آجاتا ہے۔ قرآن نے اس اسلوب کے مضمرات کہیں کہیں کھول بھی دیے ہیں۔ مثلاً سورة بنی اسرائیل میں یہی بات یوں ارشاد ہوئی ہے۔ وَقَضَى رَبُّكَ أَلا تَعْبُدُوا إِلا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (24) : اور تیرے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ تم نہ عبادت کرو مگر اسی کی اور والدین کے ساتھ احسان کرو جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو نہ ان سے اظہار بیزاری ہو، نہ ان کو جھڑکنا، ان سے سعادت مندانہ بات کرنا اور ان کے لیے مہر و وفا کے بازو جھکائے رکھنا اور دعا کرنا کہ اے رب تو ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں مہر کے ساتھ پالا۔ قتلِ اولاد فقر و فاقہ کے اندیشہ سے : وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ۔ ‘ املاق ’ کے معنی فقر و تنگ دستی کے ہیں۔ سورة بنی اسرائیل میں خشیۃ املاق کے الفاظ ہیں۔ یعنی اس اندیشہ سے کہ اولاد کیا کھائے گی، کہاں سے اس کی پرورش ہوگی، اس کو قتل نہ کرو۔ اہل عرب میں قتل اولاد کی ایک قسم تو وہ تھی جس کا تعلق مشرکانہ توہمات سے تھا، جس کا ذکر اسی سورة میں پیچھے گزرا ہے، دوسری صورت بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردینے کی تھی جس کا سبب غیرت کا ظالمانہ حد تک غلو تھا۔ تیسری یہ فقر و فاقہ کے اندیشے کی سورت تھی۔ بعض غریب لوگ تنگ دستی سے گھبرا کر یہ سنگ دلانہ حرکت کر بیٹھتے۔ اس قسم کی لرزہ خیز خبریں اب بھی کبھی کبھی ان ملکوں سے آجاتی ہیں جن میں غربت زیادہ ہے یا جہاں کسی ناگہانی آفت سے لوگ مصائب میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اس ظلم کا اصل باعث انسان کی کی یہ جہالت ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنا اور اپنی اولاد اور متعلقین کا روزی رساں سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ ہر شخص کو وجود اور زق خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ انسان ان چیزوں میں واسطہ اور ذریعہ ہونے سے زیادہ دخل نہیں رکھتا۔ اگر کسی کو خدا نے اولاد بخشی ہے تو اصلاً وہ اس کی تحویل میں خدا کی امانت ہے۔ اس کا فرض یہ ہے کہ عقل و فطرت اور شریعت کی رو سے اس امانت سے متعلق اس پر جو ذمہ داریاں اور جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اپنے امکان کے حد تک ادا کرے۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ خدا نے اس کو ان کا رزاق بنایا ہے اور جس رزق سے وہ پلتے ہیں یہ وہ ان کو فراہم کرتا ہے۔ ان کا رزق تو درکنار آدمی اپنا رزق بھی خدا ہی سے پاتا ہے۔ بچہ ماں کی چھاتی سے جو دودھ پیتا ہے یہ بھی ماں کا دیا ہوا نہیں بلکہ اپنے رب کا دیا ہوا پیتا ہے تو جب بچہ اپنے رب کا دیا ہوا کھاتا پیتا ہے تو کسی دوسرے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کو اس اندیشہ سے قتل کرے کہ میں اس کی پرورش کہاں سے کروں گا ؟ قرآن نے اسی حقیقت کو یوں سمجھایا ہے کہ َحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ (ہم ہی تم کو بھی روزی دیتے ہیں اور ان کو بھی روزی دیتے ہیں)۔ خاندانی منصوبہ بندی : افراد کی طرح بعض اوقات حکومتیں بھی اپنے دائرہ اختیار اور اپنے فطری و شرعی حدود کار سے متجاوز ہو کر ان حدود میں مداخلت کرنے لگتی ہیں جو قدرت کے حدود ہیں۔ اس تعدی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خلق کے لیے کوئی مفید کام کرنے کی جگہ وہ اپنی صلاحیتیں نظام قدرت سے زور آزمائی میں صرف کرنا شروع کردیتی ہیں۔ ایک فرض شناس حکومت کے لیے یہ بات تو معقول ہے کہ وہ اپنے ملک کے وسائل معاش کو ترقی دینے کے لیے بر و بحر کے ایک ایک چپہ اور ایک ایک گوشے کو چھان ڈالے اور اس راہ کے کسی پتھر کو بھی الٹے بغیر نہ چھوڑے۔ یہ بات بھی اس کے فطری بلکہ شرعی فرائض میں سے ہے کہ وہ ملک کے عوام کو زندگی کے ہر شعبہ میں، خواہ وہ پبلک ہو یا پرائیویٹ، اجتماعی ہو یا خاندانی، احتیاط، اعتدال، کفایت شعاری، صحت، صفائی اور محنت کی تربیت دے لیکن یہ امر بالکل اس کے دائرہ اختیار اور حدود کار سے باہر ہے کہ وہ یہ منصوبہ بندی کرے کہ اتنی مدت میں ہم اتنا غلہ پیدا کریں گے اور اسی حساب سے اتنے بچوں کو پیدا ہونے دیں گے اور اگر کسی مزید ناخواندہ مہمان نے ہماری روٹی اور گنی بوٹی میں حصہ دار بننے کی کوشش کی تو ہم اپنی سائنسی تدبیروں سے کام لے کر اس کا گلا گھونٹ دیں گے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس معاملے میں جو غلط فہمی عرب جاہلیت کے سنگدلوں کو لاحق ہوئی تھی اسی غلط فہی کا شکار اس زمانے کی متمدن حکومتیں ہو رہی ہیں۔ انہیں بھی خدا پر غصہ تھا کہ جب وہ بھرپور روٹی نہیں دے رہا ہے تو دمبدم اولاد میں کیوں اضافہ کیے جا رہا ہے ؟ یہ غصہ وہ اولاد کو قتل کر کے نکالتے تھے۔ اس زمانے کے متمدن انسان کو یہ برہمی ہے کہ ابھی جب اپنے ہی معیار زندگی کو ہم اپنے مطلوبہ معیار پر نہ پہنچا سکے تو دوسرے کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پر کس طرح اٹھا لیں ؟ اس برہمی یا گھبراہٹ میں انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کی اسکیم بنا ڈالی۔ شکلیں ذرا بدلی ہوئی ہیں، عرب اجڈ اور گنوار تھے اس وجہ سے انہوں نے ایک ناتراشدیدہ اور بھونڈی سی شکل اختیار کی ہے اور نام بھی اس کا اس نے پیارا سا ڈھونڈھ نکالا ہے لیکن فلسفہ دنوں جگہ ایک ہی ہے۔ انہوں نے بھی رزاق اپنے کو سمجھا اور یہ بھی رزاق اپنے کو سمجھے بیٹھے ہیں حالانہ رزاق اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن نے عربوں پر تو ان کی غلطی واضح کردی اور یہ بات سمجھ بھی گئے، مان بھی گئے، لیکن اس زمانے کے پر ہے لکھے جنوں کو کون سمجھائے اور کون قائل کرے ! ! وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ، ‘ فواحش ’ کے معنی کھلی ہوئی بےحیائی اور بدکاری کے ہیں، جن میں اولین درجہ زنا کو حاصل ہے، چناچہ سورة بنی اسرائیل میں اسی مضمون کو یوں ادا فرمایا ہے“ ولا تقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ و ساء سبیلا : اور زنا کے پاس بھی نہ پھتکو، یہ کھلی ہوئی بےحیائی اور نہایت ہی بری راہ ہے ”لا تقربوا کا لفظ ان برائیوں سے روکنے کے لیے قرآن میں استعمال ہوا ہے جن کا پرچھاواں بھی انسان کے لیے مہلک ہے، جو خود ہی نہیں بلکہ جن کے دواعی و محرکات بھی نہایت خطرناک ہیں، جو بہت دور سے انسانوں پر اپنی کمند پھینکتی ہیں اور پھر اس طرح اس کو گرفتار کرلیتی ہیں کہ ان سے چھوٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسی برائیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے میں آدمی کو کامیابی صرف اسی صورت میں حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنی نگاہ، اپنی زبان، اپنے دل کی پوری پوری حفاظت کرے اور ہر اس رخنہ کو پوری ہوشیاری سے بند رکھے جس سے کوئی ترغیب اس کے اندر راہ پا سکتی ہو اور ہر ایسے مقام سے پرے پرے رہے جہاں کوئی لغزش ہوسکتی ہے۔ اسی ‘ لاتقربوا ’ کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے قرآن نے مردوں اور عورتوں دونوں پر بہت سی پابندیاں عائد کی ہیں جن کی تفصیل احزاب اور نور میں بیان ہوئی ہے۔ وہاں ہم انشاء اللہ اس کے سارے پہلو زیر بحث لائیں گے۔ نیکیوں اور بدیوں دونوں سے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کا اصل منبع انسان کا دل ہوتا ہے اس وجہ سے کوئی نیکی اس وقت فروغ نہیں پاتی جب تک دل کے اندر اس کی جڑ مضبوط نہ ہو۔ علی ہذا القیاس کوئی برائی اس وقت تک انسان کی جان نہیں چھورتی جب تک دل کے اندر سے اس کی جڑ اکھاڑ نہ دی جائے۔ اگر کوئی برائی دل کے اندر موجود رہے تو وہ کان آنکھ، زبان، فکر اور خیال کی راہ سے برابر غذا حاصل کر کے موٹی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ روحانی سرطان کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور گو اس کو زندگی میں ایک دن بھی فعلاً بروئے کار آنے کا موقع نہ ملا ہوتا ہم انسان کے قلب و دماغ پر اس کا اس طرح تسلط ہوجاتا ہے کہ پھر تزکیہ و اصلاح کا کوئی سخت سے سخت اپریشن بھی اس پر کار گر نہیں ہوتا۔ وہ بالآخر انسان کی اخلاقی و ایمانی موت ہی پر منتہی ہوتی ہے اس وجہ سے قرآن نے ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے فحشا سے دور دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ۔ ہر جان بجائے خود محترم ہے اس وجہ سے اس کی صفت التی حرم اللہ (جس کو اللہ نے حرام ٹھہرایا) وارد ہوئی۔ اس سے مسٹچنی صرف وہ جان ہے جو کسی حق یا شرعی یا بالفاظ دیگر قانون کے تحت مباح الدم قرار دیا جائے۔ مثلاً کسی پر قصاص عائد ہو یا وہ اللہ وہ رسول کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑا ہو یا زنا کی اس شکل کا مرتکب ہوا ہو جس پر رجم کی سزا ہے۔ اس قسم کے حق شرعی و قانونی کے بغیر کسی کو قتل کرنا جائز نہیں۔ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ، یہ باتیں ہیں جن کی اللہ نے ملت ابراہیم میں ہدایت فرمائی تھی۔ تم یہ باتیں تو چھوڑ بیٹھے، التبہ اپنے جی سے چند اچھے بھلے جانوروں کو حرام کر کے ملت ابراہیم کے دعویدار بنے پھر رہے ہو۔ اب میں تمہیں از سرِ نو ملت ابراہیم کے یہ احکام اس لیے سنا رہا ہوں کہ تم سوچو اور سمجھو کہ تم کہاں سے کہاں نکل گئے ہو اور دعوی یہ رکھتے ہو کہ تم ملت ابراہیم پر ہو۔ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ کا اصلی زور سمجھنے کے لیے کلام کی تمہید قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ پیش نظر رکھیے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے یہ تفصیل اس لیے سنائی ہے کہ تم اپنے رویہ کا جائزہ لو اور حقیقت حال کو سمجھو۔
Top