Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 141
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ٘ وَ لَا تُسْرِفُوْا١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ
وَهُوَ
: اور وہ
الَّذِيْٓ
: جس نے
اَنْشَاَ
: پیدا کیے
جَنّٰتٍ
: باغات
مَّعْرُوْشٰتٍ
: چڑھائے ہوئے
وَّ
: اور
غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ
: نہ چڑھائے ہوئے
وَّالنَّخْلَ
: اور کھجور
وَالزَّرْعَ
: اور کھیتی
مُخْتَلِفًا
: مختلف
اُكُلُهٗ
: اس کے پھل
وَالزَّيْتُوْنَ
: اور زیتون
وَالرُّمَّانَ
: اور انار
مُتَشَابِهًا
: مشابہ (ملتے جلتے)
وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ
: اور غیر مشابہ (جدا جدا)
كُلُوْا
: کھاؤ
مِنْ
: سے
ثَمَرِهٖٓ
: اس کے پھل
اِذَآ
: جب
اَثْمَرَ
: وہ پھل لائے
وَاٰتُوْا
: اور ادا کرو
حَقَّهٗ
: اس کا حق
يَوْمَ حَصَادِهٖ
: اس کے کاٹنے کے دن
وَلَا تُسْرِفُوْا
: اور بیجا خرچ نہ کرو
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
لَا يُحِبُّ
: پسند نہیں کرتا
الْمُسْرِفِيْنَ
: بیجا خرچ کرنے والے
اور وہی خدا ہے جس نے باغ پیدا کیے، کچھ ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں کچھ نہیں چڑھائے جاتے۔ اور کھجور اور کھیتی پیدا کی مختلف النوع پیداوار کی۔ اور زیتون اور انار باہمدگر ملتے جلتے بھی اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھاؤ جب وہ پھلیں اور اس کی کٹائی کے وقت اس کا حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ : یعنی کھیتی اور باغ سب پیدا کیے ہوئے تو خدا کے ہیں تو ان میں تم نے دوسرے دیویوں، دیوتاؤں کو کس حق کی بنا پر شریک بنا ڈالا، مَّعْرُوْشٰتٍ سے مراد انگور وغیرہ ہیں جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ سے وہ چیزیں مراد ہیں جو ٹٹیوں کی محتاج نہیں ہوتیں۔ انگور کی بیلوں کی مناسبت سے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وہ بیلیں ہیں جو زمین ہی پر پھیلتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ مثلاً خربوزے، تربوز، ککڑیاں، کھیرے وغیرہ۔ سورة عبس میں، عنب، اور، قضب، دو چیزوں دو چیزوں کو جمع کیا ہے، عنب، انگور کو کہتے ہیں اور قضب، ان سبزیوں کے لیے معروف ہے جو تازہ حالت میں کھائی جاتی ہیں۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں باغوں اور کھیتیوں کی گوناگونی و بوقلمونی، ان کی پیداوار کے تنوع اور ان کے انواع و اقسام کے اختلاف و تعدد کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے جس سے مقصود بعض حقائق کی طرف توجہ دلانا ہے اشیائے کائنات کی شہادت زبان حال سے : ایک یہ کہ جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے وہ بڑا ہی جواد و کریم، فیاض و مہربان، سخی اور بندہ نواز ہے۔ اس نے بندوں میں رزق کی احتیاج رکھی تو یہ نہیں کیا کہ جیسا تیسا پیٹ بھرنے کا سامان پیدا کردیا ہو بلکہ الوان نعمت کے انبار لگا دیے۔ باغ اگائے تو گوناگوں قسم کے، کھجور اور غلے پیدا کیے تو بیشمار اقسام کے زیتون، انار اور دوسرے پھل پھول عنایت کیے تو نت نئے انواع کے، آخر مجرد زندگی باقی رکھنے کے لیے تو یہ تنوعات، یہ بوقلمونیاں، شکلوں، رنگوں ذائقوں اور مزوں کی یہ رنگ آرائیاں و رعنائیاں ناگزیر نہیں تھیں لیکن اس دنیا کے خالق نے بغیر اس کے کہ اس کی کوئی ضرورت ہم سے وابستہ ہو ہمارے لیے اتنا وسیع دسترخوان بچھایا کہ ہم اس کے لذائذ کے انواع و اقسام گننا چاہیں تو گن نہیں سکتے۔ سوچنے والوں کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انسان یہ جانے کہ اس کا رب، منعم و کریم اور فیاض و مہربان ہے جس نے بلا کسی استحقاق کے اس کے لیے یہ سارے سامان مہیا فرمائے ہیں اور پھر اس کا فطری اثر اس کے دل پر یہ طاری ہو کہ وہ اس کا شکر گزار بندہ بنے اور اس کا حق پہچانے۔ یہی شکر گزاری کا جذبہ اور حق شناسی کا احساس ہے جو تمام دین و شریعت کی، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں، بنیاد ہے۔ دوسری یہ کہ پر ودگاری اور ربوبیت کا یہ سارا ساز و سامان، جس سے ہم بلا استحقاق فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمارے اوپر ایک بہت بھاری ذمہ داری عاید کرتا ہے۔ وہ یہ کہ ہم ان سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ جس نے یہ سب کچھ ہمارے لیے بنایا ہے ضرور ہے کہ وہ ایک دن ایسا بھی لائے جس میں ہم سے ایک ایک نعمت کے متعلق سوال کرے کہ جس کے خوان نعمت سے ہم نے یہ فائدے اٹھائے اس کی وفاداری کا حق ادا کیا یا نہیں اور پھر اسی کے لحاط سے وہ ہم کو جزا یا سزا دے۔ یہ اس بنیاد پر ہے کہ ہر حق اور ہر تمتع کے ساتھ ذمہ داری اور ہر priviledge کے ساتھ responsibility لازمی ہے۔ ان دونوں کا لازم و ملزوم ہونا انسانی فطرت کے بدیہیات میں سے ہے۔ ہر حساس انسان اس کو تسلیم کرتا ہے۔ صرف لئیم، کمینہ اور بلید لوگ ہی ہوسکتے ہیں جو اللہ کی نعمتوں سے فائدہ تو اٹھائیں لیکن ان کے جواب میں کوئی ذمہ داری محسوس نہ کریں۔ تیسری یہ کہ اس کائنات میں کثرت کے اندر وحدت، گوناگونی کے اندر ہم آہنگی، اختلاف کے اندر ساز گاری، ہر گوشے میں نمایاں ہے، مٹی، پانی، ہوا ایک ہی لیکن اشیا گوناگوں قسم کی، رنگ مختلف قسم کے۔ مزے، خوشبو، قد و قامت الگ الگ۔ پھر یہ سب انسان کے لیے نعمت و برکت، غذا اور لذت ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس خالق نے ہمارے جسم کے اندر گلو کوز اور فولاد کا تقاضا ودیعت کیا اسی نے انار اور انگور کے دانوں کے اندر رس بھرے۔ جس نے ہماری زبان کے اندر مختلف ذائقے ودیعت کیے اسی نے ان اشیا کے اندر مختلف مزے پیدا کیے۔ جس نے ہماری نگاہوں کو حسن و جمال کا ذوق بخشا اسی نے ہر چیز کو حسن و رعنائی، دلکشی و دلربائی کا پیکر بنا دیا۔ قرآن نے یہاں اشیا کے ظاہری تضاد و اختلاف کے اندر اسی وحدت مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ یہ چیز اس کائنات کے خالق اور اس کے مصرف کی توحید کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ پیچھے آیات 99 تا 101 کے تحت بھی بعض اشارے گزر چکے ہیں۔ مزید تفصیل کے طالب ہماری کتابیں، حقیقت شرک، اور حقیقتِ توحید، پڑھیں، ان میں ہم نے ان مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ، یہ تعلیم تمام نعمتیں اپنی زبان حال سے بھی دے رہی ہیں اور یہی تعلیم خدا اور اس کے نبیوں اور رسولوں نے بھی دی ہے اور یہی ان نعمتوں کا وہ حق بھی ہے جس کی شہادت خود ہماری فطرت دیتی ہے بشرطیکہ وہ مسخ نہ ہوگئی ہو۔ یعنی اللہ کی بخشی ہوئی ان کھیتوں اور ان باغوں سے خود فائدہ اٹھاؤ اور جب فصلوں کے کاٹنے اور پھلوں کے تورنے کا وقت آئے تو ان کا حق ادا کرو، حقہ، میں ضمیر کا مرجع خدا بھی ہوسکتا ہے اور ثمر بھی لیکن دونوں صورتوں میں باعتبار مفہوم کچھ زیادہ فرق نہ ہوگا۔ ہر نعمت جو اللہ تعالیٰ عنایت فرماتا ہے اس کا ایک حق واجب یہ ہے کہ جس کو یہ نعمت ملی وہ اس میں ان لوگوں کو بھی شریک کرے جو اس سے محروم ہیں۔ یہ اس نعمت کی شکر گزاری کا حق ہے۔ یہی حق ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا حق کہا جاتا ہے۔ اس حق کا شعور انسان کی فطرت کے اندر ودیعت ہے۔ جب سے انسان پایا جاتا ہے، تمام بھلے انسانوں کے اندر اس حق کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ حضرت آدم کا بیٹا ہابیل اپنی بھیڑوں بکریوں کا جو نذرانہ خداوند کے لیے لایا تھا وہ اسی حق کی ادائئیگی کے لایا تھا۔ یہی حق ہے جس کی ادائیگی کے لیے اسرائیلی شریعت میں بھی اور پھر اسلام میں بھی زکوۃ کا ایک باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ حق زکوۃ پیدا وار پر ہے : يَوْمَ حَصَادِهٖ کے لفظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس حق کی ادائیگی فصل کے درد کے وقت اس کے حاصل سے ہونی چاہئے۔ اس کی علت یہ ہے کہ یہ حق درحقیقت اس نعمت الٰہی کا شکرانہ ہے جو کسان کو حاصل ہوئی۔ اسی وجہ سے اسلام نے زکوۃ کا حق پیداوار پر رکھا ہے۔ یہی بات عقل و فطرت کے مطابق ہے۔ اس زمانے میں دوسری قوموں کی نقالی میں مسلمانوں نے بھی ایک بالکل غیر اسلامی مالیاتی نظام اختیار کرلیا ہے اس وجہ سے مسلمان حکومتیں زکوۃ کے بجائے ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ یہ چیز اس برکت اور اس عدل سے بالکل خالی ہے جو اسلام کے نظام زکوۃ میں ہے۔ مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ ، میں ضمیر ہرچند واحد ہے لیکن مراد وہ ساری ہی چیزیں ہیں جو مذکور ہوئیں۔ اس طرح متعدد چیزیں ذکر کرنے کے بعد جب ضمیر یا فعل واحد لاتے ہیں تو مقصود ان میں سے ہے ایک ایک چیز کا حکم فرداً فرداً بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ہر پیداوار پر خدا کا حق ہے، خواہ کوئی شے بھی ہو، اس سے استثنا کسی شے کا نہیں بلکہ ایک خاص مقدار کا ہے۔ شریعت نے ایک خاص حد تک کی پیداوار، پیدا کرنے والے کی ضروریات کا لحاظ کر کے اس حق سے مستثنی کردی ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ مقدار کیا ہے تو اس کا تعلق فقہ سے ہے اور یہ بات تفصیل طلب ہے جس کے لیے یہاں گنجائش نہیں ہے۔ فقہاء بعض اموال کو اموال زکوۃ میں شمار نہیں کرتے، یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر وہ شے نہایت محدود مقدار میں محض گھریلو استعمال کے حد تک پیدا کی جاتی ہو تب تو بیشک وہ زکوۃ سے مستثنی ہونی چاہیے لیکن اگر انہی چیزوں میں سے کوئی چیز کوئی زمیندار بڑے پیمانہ پر کاشت کرے یا وہی چیز کسی علاقہ یا ملک کی عام پیداوار کی حیثیت رکھتی ہو یا حاصل کرلے تو آخر وہ زکوۃ سے مستثنی کیوں رہے گی۔ اِذَآ اَثْمَرَ کا تعلق صرف کُلُوا سے نہیں ہے بلکہ کُلُوْا اور اتوا حقہ دونوں سے ہے۔ یعنی جس طرح پیداوار سے انتفاع منحصر ہے پیداوار حاصل ہونے پر، اسی طرح اس کے حق شرعی کی ادائیگی واجب ہے اس کے پیدا ہونے اور کھیت سے کھلیان تک پہنچنے پر۔ اس سے یہ حقیقت مزید موکد ہوگئی کہ اس حق کا اصل تعلق پیداوار سے ہے نہ کہ زمین سے، چناچہ اسی اصول پر اسلام کا نظام زکوۃ ہے۔ وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۔ یہ ادائے حق کے ساتھ اسی طرح کی ہدایت ہے جس طرح کی ہدایت سورة بنی اسرائیل میں بعینہ اسی سیاق میں وارد ہوئی ہے۔ فرمایا ہے وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26)إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (27) اور قرابت مند، مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو، فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل 26۔ 27)۔ اس ہدایت کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ حقوق کی ادائیگی کا انحصار اس امر پر ہے کہ آدمی اپنی جروریات و خواہشات کے معاملے میں معتدل، کفایت شعار اور میانہ رو ہو۔ جو شخص مسرف اور فضول خرچ ہو اس کے اپنے ہی شوق پورے نہیں ہوپاتے، وہ دوسروں کے حقوق کیا ادا کرے گا۔ شیطان ارباب مال پر سب سے زیادہ حملہ اسی اردہ سے کرتا ہے۔ وہ ان کو طرح طرح کی آرزوؤں اور خواہشوں میں پھنساتا ہے اور وہ ان خواہشات و تعیشات کے ایسے غلام ہوجاتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان کا درجہ ضروریات سے بھی کچھ بڑھ کر ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ بھلا کس طرح سوچ سکتے ہیں کہ جس مال میں ان کے یہ اللے تللے ہیں اس میں خدا کے دوسرے بندوں کے بھی حقوق ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کتے، باز، شکرے تو آسودہ رہتے ہیں لیکن ان کے پڑوسی بھوکے سوتے ہیں۔
Top