Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 140
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْۤا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِ١ؕ قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠   ۧ
قَدْ خَسِرَ : البتہ گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے قَتَلُوْٓا : انہوں نے قتل کیا اَوْلَادَهُمْ : اپنی اولاد سَفَهًۢا : بیوقوفی سے بِغَيْرِ عِلْمٍ : بیخبر ی (نادانی سے) وَّحَرَّمُوْا : اور حرام ٹھہرا لیا مَا : جو رَزَقَهُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ افْتِرَآءً : جھوٹ باندھتے ہوئے عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَدْ ضَلُّوْا : یقیناً وہ گمراہ ہوئے وَمَا كَانُوْا : اور وہ نہ تھے مُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
وہ لوگ نامراد ہوئے جنہوں نے محض بےوقوفی سے، بغیر کسی علم کے اپنی اولاد کو قتل کیا، اور اللہ نے ان کو جو روزی بخشی اس کو اللہ پر افترا کر کے حرام ٹھہرایا، یہ گمراہ ہوئے اور ہدایت پانے والے نہ بنے۔
قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَاۗءً عَلَي اللّٰهِ۔ یہ ان تمام حماقتوں پر جو اوپر مذکور ہوئیں اور ان کے مرتکبین کی بد انجامی پر اظہار افسوس ہے کہ بغیر کسی خدائی سند کے محض حماقت سے، اللہ پر افترا کر کے انہوں نے اپنی اولادوں کو قتل کیا اور اللہ کے بخشے ہوئے رزق کو اپنے اوپر حرام کیا، ان کی بدبختی و نامرادی میں کیا شبہ کی گنجائش ہے۔ یہ لوگ راہ حق سے بھٹکے اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ سے ان کو اپنی راہ دکھائی تو اپنی بدبختی کے سبب سے اس کو اختیار کرنے والے نہ بنے۔ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ۔ فصل 21: اگلی آیات 141 تا 165 کا مضمون : آگے ان بدعا کی تردید فرمائی ہے جو اوپر مذکور ہوئیں۔ اس تردید کے کئی پہلو ہیں۔ اول یہ کہ زمین کی پیداوار ہو یا مال مویشی، سب خدا ہی نے پیدا کیے ہیں اور اسی کی عنایت سے تمہیں ملے ہیں تو ان سے فائدہ اٹھاؤ، خدا کا شکر ادا کرو، ان میں سے خدا کا حق ادا کرو، اور شیطان کی پیروی میں اپنے جسی سے، مشرکانہ توہمات کے تحت، حلال و حرام نہ ٹھہراؤ، شیطان تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ دوسرا یہ کہ تمام چوپایوں میں سے نر و مادہ دونوں کو لے کر ایک ایک سے متعلق سوال کیا ہے کہ بتاؤ ان میں سے نر حرام ہے یا مادہ اور مطالبہ کیا کہ کسی سند سے یہ ثابت کرو کہ ان چوپایوں میں سے کوئی ایک بھی ملت ابراہیم میں حرام تھا۔ جب ان میں سے کسی کی حرمت تم کسی دلیل سے ثابت نہیں کرسکتے تو انہی کی نسل سے پیدا شدہ جانوروں میں سے کوئی حرام اور کوئی حلال کس طرح بن جائے گا ؟ آخر ایک ہی درخت کے کچھ پھل جائز اور کچھ ناجائز ہونے کے کیا معنی ؟ تیسرا یہ کہ ملت ابراہیم کے حلال و حرام سے متعلق جو وحی مجھ پر آئی ہے اس میں تو فلاں فلاں چیزوں کے سوا اور کسی چیز کی حرمت کا ذکر نہیں ہے۔ یہود پر جو چیزیں حرام ہوئیں وہ بھی وہی ہیں جو ملت ابراہیم میں حرام تھیں بجز ان چیزوں کے جو ان کی سرکشی کے نتیجے میں ان پر حرام کی گئیں۔ اس کے بعد ملت ابراہیم کی بنیادی تعلیمات کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اسی صراط مستقیم کی تمہیں دعوت دی جا رہی ہے تو اس سے منحرف ہو کر گمراہی کی وادیوں میں نہ بھٹکو، اس کے ساتھ حضرت موسیٰ کو جو شریعت عطا ہوئی اس کا حوالہ دیا کہ وہ بھی ان کے لیے، جنہوں نے اس کو صحیح طریقہ پر قبول کیا، اسی راہ کی طرف رہنمائی کرنے والی تھی۔ اس کے بعد اس احسانِ عظیم کا ذکر فرمایا جو اس قرآن کو نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے اہل عرب پر کیا اور یہ تنبیہ فرمائی کہ یہ کتاب اتار کر اللہ نے تم پر حجت تمام کردی ہے، اب تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا ہے، اگر اس کو ماننے کے لیے عذاب کے منتظر ہو تو یاد رکھو کہ عذاب آجانے پر جو ایمان لایا جاتا ہے وہ نافع نہیں ہوا کرتا۔ آخر میں پیغمبر ﷺ کی زبان سے اعلان کرایا کہ خدا نے مجھے تو ملت ابراہیم کی ہدایت بخش دی، میری نماز، قربانی، زندگی اور موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ تم میں سے جو یہ راہ اختیار کرنی چاہے، اختیار کرے ورنہ خدا کے حضور جواب دہی کے لیے تیار رہے۔ وہاں ہر ایک کو اپنی جواب دہی خود کرنی ہے، کوئی دوسرا اس کے بوجھ کو اٹھانے والا نہ ہوگا۔ ساتھ ہی قریش کو تنبیہ فرمائی کہ تم پہلی قوم نہیں ہو جو دنیا کے اسٹیج پر نمودار ہوئی ہو۔ تم سے پہلے بھی قومیں آچکی ہیں اور اپنی سرکشیوں کے نتیجہ میں کیفر کردار کو پہنچ چکی ہیں۔ اگر ان کے جانشین ہو کر تم نے بھی وہی روش اختیار کی تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ تمہارے معاملے میں سنت الٰہی بدل جائے۔ تم بھی اسی انجام کو پہنچو گے جس کو وہ پہنچیں۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top