Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 12
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ١ؕ كَتَبَ عَلٰى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں لِّمَنْ : کس کے لیے مَّا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین قُلْ : کہ دیں لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے كَتَبَ : لکھی ہے عَلٰي نَفْسِهِ : اپنے (نفس) آپ پر الرَّحْمَةَ : رحمت لَيَجْمَعَنَّكُمْ : تمہیں ضرور جمع کرے گا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں اَلَّذِيْنَ : جو لوگ خَسِرُوْٓا : خسارہ میں ڈالا اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ فَهُمْ : تو وہی لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائیں گے
ان سے پوچھو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کا ہے ؟ کہہ دو اللہ ہی کا ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف جس میں ذرا شبہ نہیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہی ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتے۔
تفیسر آیت 12-13 سوال و جواب کا ایک خاص اسلوب : قرآن میں جہاں جہاں سوال کر کے مخاطب کے جواب کا انتظار کیے بغیر خود اس کا جواب دیا ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مواقع میں اصل جواب سے مخاطب کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر اس کا کوئی عقیدہ یا عمل اس کے خلاف ہے تو وہ خود اس کے اپنے مسلمہ کے خلاف ہے۔ جواب میں سبقت سے اس امر کا بھی اظہار ہوجاتا ہے کہ بہرحال اصل حقیقت کا اظہار کردیا جائے قطع نظر اس سے کہ مخاطب اس کے جواب میں کیا ہٹ دھرمی اختیار کرتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اہل عرب مشرک ہونے کے باوجود آسمان و زمین کا خالق ومالک خدا ہی کو مانتے تھے۔ اس کی وضاحت دلائل کے ساتھ ہم دوسرے مقام میں کرچکے ہیں۔ قیامت خدا کی صفتِ رحمت کا لازمی تقاضا ہے : كَتَبَ عَلٰي نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ، یہ اللہ تعالیٰ کے صفت رحمت سے کمال درجہ متصف ہونے کی تعبیر بھی ہے اور اس امر کا اظہار بھی کہ ہر وہ بات جو اس صفت کا مقتضی ہے اس کا ظہور میں آنا قطعی اور اٹل ہے، کوئی چیز اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہوسکے گی۔ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ میں عربیت کا جو اسلوب ہے اس پر سورة نساء کی آیت 87 کے تحت بحث گزر چکی ہے۔ یہاں جو بات نگاہ میں رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کا آنا خدا کی صفت رحمت کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر قیامت نہ آئے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کائنات کا خالق رحمان و رحیم نہیں ہے۔ اس کے نزدیک نعوذ باللہ عدل و ظلم، نیکی اور بدی، خیر اور شر دونوں یکساں ہیں، یہ ایک کھلنڈرے کا کھیل اور ایک اندھیر نگری ہے۔ یہ باتیں چونکہ بالبداہت باطل ہیں، رحمان و رحیم خدا کی شان کے بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بےغایت و بےمقصد کام کرے، اس وجہ سے لازمی ہے کہ ایک ایسا دن وہ لائے جس میں اس کی رحمت کامل کا ظہور ہو، اپنے نیک بندوں کو وہ اپنی بےپایاں رحمتوں سے نوازے اور جو بدکار و نابکار ہیں وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ قیامت کا اصل مقصود مجرموں کو سزا دینا نہیں بلکہ نیکو کاروں کو جزا دینا ہے۔ مجرموں کی سزا در حقیقت نیکو کاروں کی جزا کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ آگے آیت 53 کے تحت اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ اَلَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ کے مضمون کی وضاحت آگے آیت 31 میں فرما دی ہے۔ قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ ۭ حَتّٰى اِذَا جَاۗءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا يٰحَسْرَتَنَا عَلٰي مَا فَرَّطْنَا فِيْهَا ۙ وَهُمْ يَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰي ظُهُوْرِهِمْ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ (گھاٹے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا، یہاں تک کہ جب وہ گھرڑی اچانک آدھمکے گی تو کہیں گے ہائے افسوس ہماری اس کوتاہی پر جو ہم سے اس بارے میں ہوئی اور وہ اس دن اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے اور آگاہ، نہایت برا بوجھ ہوگا جو وہ اٹھائے ہوئے ہوں گے)۔ وَلَهٗ مَا سَكَنَ فِي الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ، یہاں لیل و نہار دونوں کے ذکر کا تقاضا یہ ہے کہ ‘ سکن ’ کے بالمقابل کوئی ایسا فعل محذوف مانا جائے جو لفظ ‘ نہار ’ کے ساتھ مناسبت رکھنے والا ہو۔ چناچہ ہم نے ‘ تحرک ’ محذوف مانا ہے اور ترجمہ میں اس کو کھول دیا ہے۔ اس اسلوب کی وضاحت دوسرے مقامات میں ہوچکی ہے اور آگے اسی سورة میں اس کی نہایت عمدہ مثالیں آرہی ہیں۔ آیات کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ اپنی موجودہ دنیوی کامیابیوں کے غرے میں آخرت اور جز و سزا کو جھٹلا رہے اور تمہارا قرآن کا مذاق اڑا رہے ہیں تو ان سے پوچھو کہ یہ آسمان و زمین کس کے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ خدا ہی کے ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انہیں بھی مجال انکار نہیں۔ پھر انہیں بتاؤ کہ خدا نے اپنے اوپر رحمت لازم کرلی ہے جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تمہیں پیدا کر کے اور پرورش کے تمام اسباب فراہم کر کے یونہی شتر بےمہار بنا کے نہ چھوڑ دے بلکہ ضروری ہے کہ وہ تم سب کو کشاں کشاں روز قیامت کی طرف لے جائے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے تو آج جو لوگ اکڑتے اور اس کا مذاق اڑاتے اور اپنی دنیوی خود فراموشیوں میں مگن ہیں اس دن اپنی بدبختی پر اپنے سر پیٹیں گے کہ ہائے ہم نے چند روزہ عیش دنیا کی خاطر اس زندگی کو فراموش رکھا اور اپنے لیے ابدی نامراد کا سامان کیا۔ پھر فرمایا کہ یہ لوگ یاد رکھیں کہ شب کی تاریکیوں میں جو چیز ساکن ہوتی ہے اور دن کی روشنی میں جو چیز بھی متحرک ہوتی ہے سب خدا ہی کے اختیار، اسی کے قبضہ قدرت اور اسی کے کنٹرول میں ہے۔ مجال نہیں ہے کہ کوئی چیز اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوسکے اور اس کے اذن کے بغیر اپنی جگہ سے سرک سکے۔ رات کی تاریکی اور دن کی روشنی دونوں اس کے لیے یکساں ہے اور وہ ہر جگہ سے سب کو اکٹھھا کرلے گا اور جس طرح اس کی قدرت سب کو محیط ہے اسی طرح اس کا علم بھی ہر چیز پر حاوی ہے اس لیے کہ وہ سمیع وعلیم ہے۔ آگے یہی مضمون بڑی تفصیل کے ساتھ آیات 59۔ 62 میں آ رہا ہے۔
Top