Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
پس تم کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو، اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو
مشرکانہ توہمات کے تحت حرام سمجھے جانے والے چوپایوں کو کھانے کا حکم : ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ جب اسلام نے وہ تمام چوپائے حلال و طیب قرار دے دیے جن کو مشرکین نے اپنے مشرکانہ توہمات کے حرام قرار دے رکھا تھا تو اس کے خلاف انہوں نے بڑا ہنگامہ اٹھایا کہ یہ دیکھو، اس شخص نے اپنے پیرؤوں کے لیے وہ چیزیں بھی جائز کردی ہیں جو ہمارے بزرگوں، ابراہیم و اسماعیل کے زمانے سے حرام چلی آرہی تھیں۔ اس طرح کے معاملات میں جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، عام ذہن بڑا حساس اور ضیعف الاعتقاد ہوتا ہے اس وجہ سے مخالفانہ پروپیگنڈے کا اثر آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ قرآن نے یہاں اسی اثر کو دور کرنے کے لیے فرمایا کہ حرام وہی چیزیں ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں تفصیل سے بیان کردی ہیں تو ان مزرکین تحریم و تحلیل کی کوئی پروا نہ کرو۔ جو چیزیں شریعت الٰہی میں حلال ہیں ان کے باب میں اس کے سوا کوئی قید نہیں ہے کہ بوقت ذبح ان پر خدا کا نام لیا جائے اگر خدا کا نام لیا گیا ہے تو ان کو بےتکلف کھاؤ اور ان مشرکین کے پروپیگنڈے کو کوئی اہمیت نہ دو۔ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِهٖ مُؤْمِنِيْنَ۔ (اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو) تاکید اور تنبیہ بلکہ ایک قسم کی تہدید بھی ہے۔ یعنی اللہ کی آیات پر ایمان کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ خدا کے احکام کے مقابل میں مشرکوں کے بےبنیاد پروپیگنڈے کی کوئی پروا نہ کرو۔ تحریم و تحلیل کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے۔ اگر کسی اور کے لیے بھی یہ حق تسلیم کرلیا جائے تو یہ خدا کے حقوق میں دوسرے کو حصہ دار بنانا ہے اور یہ شرک ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ مسئلہ صرف ایک چیز کے کھانے اور نہ کھانے کا نہیں ہے بلکہ جن چیزوں کو مشرکانہ توہمات کی بنا پر حرام ٹھہرایا گیا ہے اللہ کی طرف سے ان کی حلت کے اعلان کے باوجود ان سے اجتناب کرنا گویا بالواسطہ شرک کو تسلیم کرنا ہوا اس وجہ سے یہ مسئلہ کفر و ایمان کا مسئلہ بن جاتا ہے توحید کا تقاضا، جیسا کہ آگے بیان آ رہا ہے، یہ ہے کہ آدمی شر ظاہر اور شرک باطن دونوں سے اپنے آپ کو پاک رکھے۔
Top