Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 113
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْئِدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ
وَلِتَصْغٰٓى : اور تاکہ مائل ہوجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف اَفْئِدَةُ : دل (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَلِيَرْضَوْهُ : اور تاکہ وہ اس کو پسند کرلیں وَلِيَقْتَرِفُوْا : اور تاکہ وہ کرتے رہیں مَا : جو هُمْ : وہ مُّقْتَرِفُوْنَ : برے کام کرتے ہیں
اور ایسا اس لیے ہے کہ اس کی طرف ان لوگوں کے دل جھکیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور تاکہ وہ اس کو پسند کریں اور تاکہ جو کمائی انہیں کرنی ہے وہ کرلیں
اس آیت کا عطف : اس مفہوم پر ہے جو اوپر والے جملے سے نکلتا ہے، یعنی ہم نے شیاطین جن و انس کو انبیاء و صالحین کی مخالفت اور بدعات و خرافات کے القا کی یہ مہلت جو اس دنیا میں دی ہے۔ یہ اس لیے دی ہے کہ اس سے ایک طرف حق پرستوں کی حق پرستی کا امتحان ہوتا ہے دوسری طرف باطل پرتوں کو ڈھیل ملتی ہے اور وہ ان شیاطین و اشرار کے ہاتھوں اپنا من بھاتا کھاجا پا کر اس کی طرف راغب ہوتے ہیں، اس کو پسند کرتے ہیں اور اس دنیا میں جو کمائی انہیں کرنی ہے وہ کرلیتے ہیں۔ یہ ڈھیل اس اختیار کا لازمی نتیجہ ہے جو انسان کو بخشا گیا ہے اس وجہ سے یہ سنت الٰہی کے تحت ہے۔ ان لوگوں کی صفت یہاں الذین لا یومنون بالاخرۃ بتائی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شیاطین و اشرار کی یہ دعوت انہی لوگوں کو اپیل کرتی ہے جو آخرت کے اعتقاد سے خالی ہوتے ہیں ان کو مطلوب صرف یہ دنیا اور اس کا عیش ہوتا ہے اور اس کی سند ان شیاطین کے ہاتھوں ان کو مل جاتی ہے۔ اقتراف کے معنی کمائی کرنے کے آتے ہیں۔ قرآن میں یہ اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں بری کمائی کرنے کے معنی میں ہے۔
Top