Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 103
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ
لَا تُدْرِكُهُ : نہیں پاسکتیں اس کو الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ يُدْرِكُ : پاسکتا ہے الْاَبْصَارَ : آنکھیں وَهُوَ : اور وہ اللَّطِيْفُ : بھید جاننے والا الْخَبِيْرُ : خبردار
اس کو نگاہیں نہیں پاتیں لیکن وہ نگاہوں کو پالیتا ہے، وہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ، یعنی اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ خدا نظر تو نہیں آتا تو یہ چیز مایوس ہونے کی نہیں، تمہاری نگاہیں تو بیشک اس کو پکڑنے سے قاصر ہیں لیکن وہ تمہاری نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ جو اسے دیکھنا چاہتا ہے وہ تو اگرچہ اس کو نہیں دیکھ پاتا لیکن وہ ڈھونڈنے والے کو دیکھ لیتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ واعبد ربک کا نک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک (اپنے رب کی بندگی اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ بہرحال تمہیں دیکھ رہا ہے)۔ خدا کے پیکر محسوس تراشنے کی ممانعت : یہ امر یہاں ملحوط رہے کہ شرک و بت پرستی کے محرکات میں سے ایک اہم محرک ابتدا سے یہ بھی رہا ہے کہ نادانوں نے خدا کو کسی پیکر محسوس میں دیکھنا چاہا ہے۔ اسی چیز نے انسان اور خدا کے درمیان واسطوں اور وسیلوں کو جنم دیا۔ جب خدا کہیں آنکھوں سے نظر نہیں آیا تو ناسمجھ لوگوں نے ان چیزوں کے پیکر تراش کر ان کی پرستش شروع کردی جن کو وہ خدا کی ذات یا صفات کا مظہر یا اس کا اوتار سمجھے چناچہ زمانہ حال کے ہندو فلسفی بت پرستی کے جواز کی نئی توجیہہ اب یہی پیش کرتے ہیں اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں جن صوفیوں نے تصور شیخ کی بدعت اختیار کی ہے وہ بھی اپنی اس بدعت کی تائید میں یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ انسان چونکہ پیکر محسوس کا خوگر ہے اس وجہ سے تصور شیخ، تصور الٰہی کا ذریعہ ہے۔ قرآن نے یہاں یہی غلط فہمی رفع فرمائی ہے کہ خدا دیکھنے اور چھونے کی چیز نہیں ہے۔ اس سے قرب و بعد دل کے واسطہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر انسان اس کو یاد رکھے تو وہ خدا سے قریب ہوتا ہے، اگر بھول جائے تو دور ہوجاتا ہے۔ اگر آدمی کی نگاہ اس کو نہیں دیکھتی تو اس سے کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا، اس کی نگاہیں آدمی کو ہر جگہ اور ہر وقت دیکھتی ہیں اور انسان کے اعتماد کے لیے یہ بس ہے۔ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ، یہ اوپر کی بات کی دلیل صفات الٰہی سے بیان فرمائی کہ وہ بڑا باریک بین اور بڑی خبر رکھنے والا ہے۔ کوئی چیز کتنے ہی پردوں میں ہو اس کی نگاہیں اس تک پہنچ جاتی ہیں اور کوئی چیز کتنی ہی مخفی ہو وہ اس سے ہر آن و ہر لمحہ باخبر ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اسکے لیے ان مزعومہ وسایط و وسائل کی ضرورت نہیں۔ تم اس کے طالب بنو وہ خود تمہیں پا لے گا۔ تمہاری نگاہیں بیشک اس کو پانے سے قاصر ہیں لیکن اس کی نگاہیں تمہاری نگاہوں کو پا لینے سے قاصر نہیں ہیں۔ وہ ہر جگہ سے ان کو پا لیتی ہیں۔
Top